اسی میگزین میں ایک اور جملہ ہے ’اہل کراچی ساحل کا رخ کرلیتی ہے‘۔ واہ کیا بات ہے۔ اب تک تو عوام کو مونث بنایا جارہا تھا، اب اہل بھی مونث ہوگئے۔ یہ کس کی نااہلی ہے؟ ’اہل‘ عربی کا لفظ ہے اور صاحب کے معنوں میں آتا ہے جیسے اہلِ علم، اہلِ کراچی۔ ان معنوں میں جمع کے لیے مخصوص ہے۔
یہ نہ کہیں گے کہ فلاں شخص اہلِ قلم ہے یا اہلِ علم ہے، بلکہ کہیں گے کہ اہلِ قلم میں سے ہے۔ کسی کو اہلِ علم لکھنے کی غلطی ہم سے بھی ہوچکی ہے جس کی اصلاح ایک قاری نے ترنت کردی تھی۔ اہل کا مطلب ہے لایق، مناسبت اور صلاحیت رکھنے والا جیسے ’جو شخص جس چیز کا اہل ہی نہ ہو وہ اس کی قدر کیا کرے‘۔ اہل کا معنیٰ خلیق و شایستہ بھی ہے۔ اہل اللہ کی ترکیب تو اردو میں عام ہے۔ اسی طرح اہلِ باطن، اہلِ بیت، اہلِ خانہ، اہلِ دل۔ اب تک کوئی شعر نہیں آیا اس لیے برداشت کریں:۔
ہر اک اپنے پہلو میں سمجھا ہے اس کو
سبھی اہلِ دل ہیں مگر دل یہی ہے
اہلِ زبان کے بارے میں حفیظ جالندھری نے کہا ہے
اہلِ زباں تو ہیں بہت کوئی نہیں ہے اہلِ دل
کون تری طرح حفیظ درد کے گیت گا سکے
اخبارات میں ایک اور غلطی عام ہوتی جارہی ہے اور وہ ہے ’آئمہ‘۔ پیر کے کچھ اخبارات میں ائمہ مساجد کے حوالے سے یہ آئمہ شائع ہوا ہے۔ ائمہ کے الف پر مد نہیں ہے اور یہ امام کی جمع ہے۔ آمام کی نہیں۔ اب نہ تو ہمارے صحافی بھائی غلطیاں کرنے سے باز آتے ہیں اور نہ ہم تصحیح کرنے سے۔
ایک اور دلچسپ جملہ نظر آتا ہے ’کام کا طریقہ کار‘۔ جملہ بظاہر صحیح ہے لیکن کبھی ’کار‘ پر غور کرکے دیکھیں، اس کا مطلب بھی تو کام ہے۔ اگر صرف ’کام کا طریقہ‘ لکھ دیا جائے تو بات بن جائے گی۔
23 مارچ کے اخبار میں جناب انور شعور کا قطعہ ہے جس کا ایک شعر ہے
لوگ ہیں اپنے اپنے گھروں میں بند
ہے کورونا بھی نیب کے مانند
انور شعور بھی ان شاعروں میں سے ہیں جن کو زبان پر عبور ہے۔ مذکورہ شعر میں انہوں نے ’مانند‘ کا قافیہ بند باندھا ہے اور یہی صحیح ہے، گوکہ لوگوں کی زبان پر مانند کا تیسرا حرف بالکسر ہے جب کہ یہ کسی کی نند کے وزن پر ہے اور مذکر ہے۔ یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ ’پرند‘ بھی مانند کے وزن پر ہے یعنی دوسرا حرف بالفتح ہے گوکہ ہم لوگ را کے نیچے زیر لگا کر پرندہ اڑاتے ہیں۔ پنجابی کا پراندہ بھی شاید پرندے سے ہو کہ یہ بھی چٹیا کے ساتھ اڑتا ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور با اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔