پاکستان

حالات مزید بگڑیں گے جس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وزیر اعظم

احتیاط کرنےمیں کامیاب ہوگئے تو مشکل سےنکل آئیں گے،بڑی تعداد میں مریض آنےلگے تو صحت کا نظام برداشت نہیں کرسکےگا،عمران خان

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں آنے والے دنوں میں کورونا کے کیسز بڑھیں گے اور حالات مزید بگڑیں گے جس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

کورونا ریلیف فنڈ کے حوالے سے نجی چینل '92 نیوز' کی لائیو ٹیلی تھون میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا اور لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں اور معیشت کو نقصان پہنچا ہے، ہم مستقبل میں اس کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بحران میں امریکا نے 2200 ارب ڈالر اور جاپان نے ایک ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکج دیا ہے، جبکہ ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ 8 ارب ڈالر کا پیکج دے سکیں، ہمارے پاس زیادہ وسائل نہیں ہیں اور جو دستیاب ہیں انہیں بروئے کار لارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خیرات دینے والے سب سے زیادہ ہیں، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ ہم اللہ کی خوشنودی کے لیے زکوٰة اور خیرات کرتے ہیں، یہ ہماری طاقت ہے، اسی طرح ہمارے نوجوان بھی ہماری بڑی طاقت ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ مستقبل میں کیا حالات ہوں گے اس کا کسی کو علم نہیں ہے، تاہم ہمیں اپنی تیاری کرنا ہوگی، اس مقصد کے لیے اپنی ان دونوں طاقتوں کو بروئے کار لائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دو ہفتے میں 144 ارب روپے ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں میں تقسیم کیے ہیں، موجودہ صورتحال سے غریب زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ان کی ضروریات کو پورا کرنے اور مشکل وقت میں ان کی مدد کے لیے یہ فنڈ قائم کیا ہے تاکہ لوگ اس میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: یورپی یونین کا پاکستان کی مالی امداد کا فیصلہ

'احتیاط کرنے میں کامیاب ہوگئے تو مشکل سے نکل آئیں گے'

ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں کورونا کے کیسز بڑھیں گے اور حالات مزید بگڑیں گے، ہمیں معلوم ہے کہ جتنی احتیاط کریں گے، اس کا پھیلاﺅ اتنا کم ہوگا، ہمارا صحت کا نظام اتنا مضبوط نہیں ہے لہٰذا اگر بڑی تعداد میں مریض آنے لگے تو یہ نظام برداشت نہیں کر سکے گا۔

عمران خان نے کہا کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے، اگر احتیاط کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس مشکل سے نکل آئیں گے ورنہ مریضوں کی تعداد کے دباﺅ کے باعث امیر ترین ممالک بھی نہیں سنبھل سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں احتیاط کرنی ہے خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو بیمار ہیں یا ضعیف ہیں، ہمیں ان کی حفاظت کے لیے احتیاط اختیار کرنا ہو گی۔

'ریلیف فنڈ سے متعلق کوئی سیاسی وابستگی نہیں دیکھی جائے گی'

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مشکل وقت میں ہمارے معاشرے کے سب سے کمزور طبقے کو فی گھرانہ 12 ہزار روپے دے رہے ہیں، یہ ایک کروڑ 20 لاکھ خاندان ہیں لیکن مزید بڑی تعداد میں ایسے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوگی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ریلیف فنڈ کا سارا پیسہ ان لوگوں کو جائے گا، اس حوالے سے کوئی سفارش یا سیاسی وابستگی نہیں دیکھی جائے گی بلکہ نادرا کے ڈیٹا بیس کی بنیاد پر مکمل چیکنگ کے بعد سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو امداد فراہم کی جائے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بھی کام کیا ہے، ایک بات بڑی واضح ہے کہ ہر پاکستانی نے اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے، سیلاب کے دوران تو بیرونی امداد کے بغیر متاثرین کی مدد کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران ایک اہم مسئلہ یہ پیش آیا کہ امداد کی تقسیم کا طریقہ کار منظم نہ ہونے کے باعث کہیں ضرورت سے زیادہ امداد پہنچ گئی تو دوسری جگہ بالکل نہیں پہنچ سکی، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے احساس پروگرام کے تحت ویب سائٹ لانچ کریں گے، جس کے ذریعے امداد دینے والوں اور ضرورت مند افراد یا علاقوں کی فہرستیں بنائی جائیں گی تاکہ منظم طریقے سے اصل ضرورت مندوں تک امداد پہنچ سکے۔

مزید پڑھیں: حکومت کے کورونا سے متعلق اقدامات، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا

'صحت کے شعبے میں خصوصی توجہ کی ضرورت ہے'

عمران خان نے کورونا کے خلاف برسر پیکار ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ان کی حفاظت کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا، پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ حکومت انہیں تمام ضروری سامان اور آلات فراہم کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کیلئے زیادہ تر سامان درآمد کیا جاتا ہے، پاکستان ایک جوہری ملک ہے جس نے ایٹم بم بنا لیا اس کے لیے وینٹی لیٹرز اور ٹیسٹنگ کٹس بنانا مشکل نہیں ہونا چاہئے، اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے خلاف جنگ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اور نہ کوئی بیرونی امداد سے جیت سکتے ہیں، یہ جنگ پوری قوم مل کر باہمی رابطے سے جیت سکتی ہے، اس سلسلے میں تمام صوبوں اور متعلقہ اداروں کی ہم آہنگی سے کام کر رہے ہیں اور ڈیٹا کا جائزہ لے کر مل جل کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔

'ملک میں بتدریج لاک ڈاؤن کی ضرورت تھی'

وزیر اعظم نے کہا کہ میں شروع سے یکدم لاک ڈاﺅن کے حق میں نہیں، ہمارے زمینی حقائق مختلف ہیں، یہاں بتدریج لاک ڈاﺅن کی ضرورت تھی کیونکہ روزگار کے ذرائع کی یکدم بندش سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں کورونا کے 26 کیسز سامنے آئے تو لاک ڈاﺅن شروع کر دیا گیا، ایک دم لاک ڈاﺅن سے غریب طبقے کی مشکلات بڑھ گئیں، پہلے بڑے اجتماعات بند کرنے کے بعد بتدریج اس سلسلے کو بڑھانا چاہیے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک چھوٹے سے امیر طبقے کے لیے سوچتے ہیں اس لیے عظیم قوم نہیں بن سکے، لاک ڈاﺅن کرتے ہوئے نہیں سوچا گیا کہ کچی آبادیوں میں رہنے والے غریب لوگ اور 80 فیصد محنت کش جو رجسٹرڈ ہی نہیں ان کا کیا بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے احساس تھا کہ غریب علاقوں کے لوگوں کا کیا بنے گا اس لیے مکمل لاک ڈاﺅن کا حامی نہیں رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس توقعات سے دوگنا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے، تحقیق

'ساڑھے 7 لاکھ نوجوان ٹائیگر فورس میں شامل ہوگئے'

ان کا کہنا تھا کہ رضاکار فورس بہت اہم ہے، برطانیہ جیسے ملک نے بھی رضاکار فورس کا اعلان کیا جہاں ادارے اور وسائل بھی موجود ہیں، اسی طرح امریکا نے جنگ میں لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے طریقہ کار کے تحت کورونا کے خلاف جنگ کے لیے بھی رضاکاروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے موجودہ اداروں پر پہلے ہی بہت دباﺅ ہے لیکن کیسز کی تعداد زیادہ بڑھنے کے بعد کیا حالات ہو سکتے ہیں، اس لیے ہمیں پہلے سے تیاری کرنی چاہیے اور یہ ٹائیگر فورس اسی تیاری کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک ساڑھے 7 لاکھ نوجوان ٹائیگر فورس میں شامل ہوئے ہیں، آنے والے دنوں میں ان کی ضرورت پڑے گی کیونکہ لاک ڈاﺅن میں کھانا پہنچانے کے لیے افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوگی، یہ رضاکار فورس سے ہی ممکن ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل وقت ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان اس آزمائش کے بعد مزید مضبوط ملک بن کر ابھرے گا۔

کورونا وائرس کی ویکسین کو ایک سال سے زیادہ عرصہ کیوں لگے گا؟

اردن: فوج نے وائرس کی شکایات نشر کرنے پر ٹی وی چینل کی انتظامیہ کو گرفتار کرلیا

سرفراز کو قومی ٹی 20 ٹیم سے نکال کر غلطی کی، راشد لطیف