بین الاقوامی سطح پر ادویات تک رسائی کے لیے کام کرنے والے GAVI Alliance کے سی ای او سیتھ بیکرلے کے مطابق اس کو روکنے کے لیے عالمی رہنمائوں کو اکٹھے ہوکر عالمی رسائی کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے۔
اس طرح کا معاہدہ زیادہ متاثر آبادی جیسے بزرگ، طبی عملے، غریب ممالک کے باسیوں تک ویکسین کی رسائی کی ضمانت ثابت ہوگا۔
اسی سے اس کمپنی یا یونیورسٹی جو کووڈ 19 کی ویکسین کی تیاری کی دوڑ میں کامیاب ہوگی، کو اپنی بائیوٹیکنالوجی دنیا بھر میں منتقل کرنے کا موقع ملے گا۔
مثال کے طور پر ایبولا ویکسین کو کینیڈا میں تیار کیا گیا، پھر اسے امریکا کی بائیو ٹیک کمپنیوں اور محققین کو منتقل کیا گیا اور آخر میں اسے جرمنی میں تیار کیا گیا۔
اب وسیع پیمانے پر ویکسینیشن کی بدولت ایبولا کی دوسری لہر کو روکنا ممکن ہوچکا ہے۔
اگر کووڈ 19 ویکسین تیار ہوگئی تو ایک بڑا سوال ابھی یہ بھی ہے کہ قوت مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکے گی۔
پین پریزبائیٹرین میڈیکل سینٹر کے شعبہ انفیکشن پریونٹیشن اینڈ کنٹرول کی ڈائریکٹر جوڈتھ او ڈونیل کے مطابق 'ایک بار ویکسین بن گئی اور قوت مدافعت زندگی بھر کے لیے برقرار رہی تو یہ دنیا کے لیے بہترین منظرنامہ ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ مگر اکثر نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کے خلاف مدافعت ایک سے 2 سال تک برقرار رہتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو کسی بھی کووڈ 19 ویکسین کو مخصوص عرصے بعد دوبارہ استعمال کرنا پڑے۔
ویکسین کی تیاری تک ہر ایک کو طبی مشوروں پر عمل کرنا چاہیے یعنی سماجی دوری کی مشق، گھر پر زیادہ سے زیادہ قیام، ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا، چہرے کو چھونے سے گریز۔