پی آئی ڈی سی بم حملہ کیس: دو بھائیوں کی سزائے موت برقرار
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو پی آئی ڈی سی بم حملہ کیس میں شریک ملزم کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دیگر دو مجرموں کی سزائے موت کو برقرار رکھا۔
جسٹس محمد کریم خان آغا کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے مشاہدہ کیا کہ دونوں بھائیوں منگلا خان اور عزیز خان کے عدالتی اعترافات رضاکارانہ طور پر کیے گئے تھے اور دو عینی شاہدین نے بھی انہیں جرم کی جگہ پر کار پارک کرنے کے لیے شناخت کیا تھا جس میں بم نصب کیا تھا۔
تاہم عدالت کے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ شریک ملزم عبدالحمید بگٹی کا معاملہ مختلف بنیادوں پر تھا کیونکہ اس کے خلاف عینی شاہد کے بیان کی حمایت میں کوئی اور ثبوت موجود نہیں۔
مزید پڑھیں: 23 سال بعد سزائے موت کے ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل
انسداد دہشت گردی عدالت نے نومبر 2005 میں پی آئی ڈی سی عمارت کے باہر بم دھماکے کے الزام میں منگلا خان اور عزیز خان کو سزائے موت سنائی تھی جس میں 4 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے تھے۔
حمید بگٹی کو دونوں بھائیوں کی سزا سنانے جانے کے ایک ماہ بعد گرفتار کیا گیا تھا اور اس کی سماعت علیحدہ کرنے کے بعد ٹرائل کورٹ نے جون 2014 میں اسی کیس میں اسے بھی موت کی سزا سنائی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ میں اپنے وکیل کے ذریعے دائر کی گئی اپیل میں انہوں نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا بعد ازاں دونوں فریقین کا مؤقف سننے اور کیس کے ریکارڈ اور کارروائی کی جانچ پڑتال کے بعد بینچ نے اپنا حکم سنایا۔
عدالت نے دیکھا کہ درخواست گزار بھائیوں کے خلاف دو اہم شواہد موجود ہیں، ایک جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ان کے اعترافی بیانات اور دوسرا دو عینی شاہدین کے پیش کردہ شواہد، جنہوں نے ان کی شناخت کی۔
اس میں مزید کہا گیا اعتراف جرم ریکارڈ کروانے میں بے ضابطگیاں صرف معمولی نوعیت کی تھیں اور بینچ نے دونوں عدالتی اعترافات پر انحصار کیا کہ انہوں نے کار کو پی آئی ڈی سی عمارت کے باہر بم کے پھٹنے سے کچھ دیر قبل ہی کھڑا کیا تھا۔
بینچ نے اپنے فیصلے میں بتایا کہ دو عینی شاہدین، ایک ٹریفک پولیس اہلکار اور ایک ٹیکسی ڈرائیور، دونوں نے درخواستگزاروں کو گاڑی پارک کرتے ہوئے اور اس سے اترتے ہوئے دیکھا تھا اور مجسٹریٹ کے ساتھ ساتھ ٹرائل کورٹ کے سامنے شناختی پریڈ کے دوران ان کی شناخت بھی کی گئی تھی۔
بینچ نے کہا کہ حمید بگٹی کے خلاف واحد ثبوت عینی شاہد (ٹریفک پولیس اہلکار) کا بیان تھا کیونکہ اس نے دھماکے سے قبل جائے وقوع کے پاس ایک کار میں بیٹھے ان کی نشاندہی کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی اور اہم مصدقہ ثبوت کی عدم موجودگی میں، ہم اس بات پر غور نہیں کرتے ہیں کہ صرف اس گواہی کی بنیاد پر اپیل کنندہ کو سزا دینا ٹھیک ہے اور اس طرح شک کا فائدہ درخواست گزار تک پہنچاتے ہوئے اسے پی آئی ڈی سی ہاؤس کے باہر کار بم دھماکے میں اس کے ملوث ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کی بنیاد پر بری کرتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: 52 مرتبہ سزائے موت پانے والا شخص بری
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سلیم اختر بریرو نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ ملزمان نے اعتراف رضاکارانہ طور پر کیے تھے اور عینی شاہدین نے درخواست گزار کی نشاندہی کی ہے۔
استغاثہ کے مطابق 15 نومبر 2005 کو پی آئی ڈی سی ہاؤس (ایک کثیر المنزلہ عمارت جس میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کا دفتر بھی قائم ہے) کے گراؤنڈ فلور پر زوردار دھماکا ہوا تھا۔
اس دھماکے میں 4 نجی سیکیورٹی گارڈ ہلاک اور 21 دیگر زخمی ہوئے تھے، ابتدائی طور پر دونوں بھائیوں کو گلشن اقبال میں اطلاع ملنے پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہوں نے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم کی ہدایت پر بم دھماکے کرنے کا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے مقامی لوگوں کی بھرتی نہ کرنے پر پی پی ایل کو 'سزا' دی تھی۔
اکبر بگٹی مرحوم کے پوتے، براہمداغ بگٹی، مقتول بلوچ رہنما عبدالمجید بگٹی کے بھتیجے اور دیگر کو اس مقدمے میں مبینہ مجرم قرار دیا گیا تھا۔