ٹائپ سی قسم یورپ کی بنیادی قسم ہے جو فرانس، اٹلی، سوئیڈن اور انگلینڈ کے ابتدائی مریضوں میں دیکھی گئی، جو کہ چین کے نمونوں میں موجود نہیں تھی مگر سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا میں نظر آئی۔
اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اٹلی میں یہ وائرس 27 جنوری کو پہلے جرمن انفیکشن کے ذریعے پہنچا جبکہ ایک اور ابتدائی اٹالین مریض میں یہ سنگاپور کے وائرس کا نتیجہ قرار پایا۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ جینیاتی نیٹ ورک تکنیک بالکل درست طریقے سے وائرس کے پھیلائو کی سمت، اس میں تبدیلیوں اور شجرہ نسب کا تعین کرسکتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اس طریقہ کار سے مستقبل میں کووڈ 19 کی وبا کا مرکز بننے والے حصوں کا تعین کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے اور اس کے لیے استعمال ہونے والے سافٹ وئیر کے ساتھ ساتھ ایک ہزار کورونا وائرسز کو بھی دیگر سائنسدانوں کے لیے مفت فراہم کیا جارہا ہے۔
سائنسدانوں نے اس سے ہٹ کر ایک ہزار وائرل جینومز کا تجزیہ بھی شروع کیا ہے جس کے نتائج ابھی جاری نہیں ہوئے، مگر فی الحال اس کام سے عندیہ ملتا ہے کہ انسانوں میں کووڈ 19 کا مرض ستمبر کے وسط سے دسمبر کے شروع میں کسی وقت سامنے آیا تھا۔
خیال رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اس وائرس کا پہلا کیس 17 نومبر کو سامنے آیا تھا۔
یہ بات ساﺅتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے چینی حکومت کے کورونا وائرسز کے کیسز کے تجزیے کے حوالے سے بتائی۔
چینی حکومتی ڈیٹا کے مطابق 17 نومبر کو یہ ممکنہ پہلا مریض سامنے آیا تھا۔
اس کے بعد روزانہ ایک سے 5 نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور 15 دسمبر تک کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی تھی جبکہ 17 دسمبر کو پہلی بار 10 کیسز رپورٹ ہوئے اور 20 دسبمر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 60 تک پہنچ گئی تھی۔
27 دسمبر کو ہوبے پرویژنل ہاسپٹل آف انٹیگرٹیڈ کے ڈاکٹر زینگ جی شیان نے چینی طبی حکام کو اس نئے کورونا وائرس سے ہونے والے مرض کے بارے میں بتایا تھا، جب تک مریضوں کی تعداد 180 سے زائد ہوچکی تھی، مگر اس وقت بھی ڈاکٹروں کو اس کے حوالے سے زیادہ شعور نہیں تھا۔
2019 کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کو مصدقہ کیسز کی تعداد 266 تک پہنچی اور یکم جنوری کو 381 تک چلی گئی۔
رپورٹ کے مطابق چینی حکومت کا یہ ریکارڈ عوام کے لیے جاری نہیں کیا گیا، مگر اس سے ابتدائی دنوں میں مرض کے پھیلاﺅ کی رفتار کے بارے میں اہم سراغ ملتے ہیں اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک چین میں کتنے کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔
سائنسدان اس پہلے مرض کی تلاش اس لیے بھی کرنا چاہتے ہیں تاکہ نئے کورونا وائرس کا باعث بننے والے ذریعے کا سراغ لگایا جاسکے، جس کے بارے میں ابھی سوچا جاتا ہے کہ یہ کسی جانور جیسے چمگادڑ سے ایک اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوگیا۔
حکومتی ڈیٹا کے مطابق یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کیسز نومبر سے بھی پہلے رپورٹ ہوئے ہوں جن کی تلاش کا کام ہورہا ہے۔