اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ درحقیقت توقعات سے زیادہ افراد کورونا وائرس سے متاثر اور اس کے خلاف اپنے اندر مزاحمت پیدا کرچکے ہیں۔
سائنسدانوں کی جانب سے تحقیق کے لیے جرمنی میں اس وبا کے مرکز سمجھے جانے والے قصبے میں لوگوں کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا کہ کہ ایسے متاثرہ افراد جن میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں، ان میں وائرس کے خلاف مزاحمت کرنے والے اینٹی باڈیز موجود تھیں، ان افراد کو کبھی مریض سمجھا ہہی نہیں تھا۔
جمعرات کو اس تحقیق کے ابتدائی نتائج جاری کیے گئے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس قصبے کی 15 فیصد آبادی میں پہلے ہی اس وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہوچکی ہے جو سابقہ تخمینے سے 3 گنا زیادہ ہے۔
نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جرمنی میں اس وائرس سے اموات کی شرح صرف 0.37 فیصد ہے جو حالیہ تخمینے سے 5 گنا کم ہے۔
تحقیقی ٹیم کے قائد پروفیسر ہینڈرک اسٹریک نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ لاک ڈائون میں اب بتدریج نرمی ممکن ہے، کیونکہ جرمنی کے شہری بہت زیادہ محتاظ اور نظم و ضبط کے عادی ہیں، تو ہم دوسرے مرحلے کی جانب پیشقدمی کے قابل ہوگئے ہیں'۔
تاہم جرمن چانسلر اینجیلا مارکل نے جلد لاک ڈائون کے خاتمے کے امکان کو مسترد کرتےہوئے کہا کہ ہمیں لاپروا نہیں برتنی چاہیے، اس سے تمام کامیابیوں پر پانی پھرسکتا ہے۔
بون یونیورسٹی کی اس تحقیق میں جرمن ضلع ہینزبرگ کے قصبے گینگلیٹ کو شامل کیا گیا تھا اور وہاں کی تمام آبادی کا جائزہ لیا گیا۔
اس مقصد کے لیے 400 گھرانوں کے ایک ہزار کے قریب افراد میں اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ کے ساتھ انفیکشن کی علامات کو بھی دیکھا گیا۔
ابتدائی نتائج میں دریافت کیا گیا کہ 2 فیصد آبادی کو اس وقت کووڈ 19 کا سامنا ہے اور 14 فیصد میں اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوچکی ہیں، یعنی قصبے کے 15 فیصد افراد اب اس وائرس سے محفوظ سمجھے جاسکتے ہیں۔
تحقیق میں شامل دوسرے سائنسدان پروفیسر گنٹر ہرٹ مین نے کہا کہ 15 فیصد ہمارے طے کردہ 60 فیصد کے ہدف سے زیادہ دور نہیں، جو ہم وبا کے خلاف لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی مزاحمت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، 60 سے 70 فیصد مزاحمت سے یہ وائرس مکمل طور پر آبادی سے غائب ہوجائے گا اور بزرگ افراد کو خطرہ لاحق نہیں رہے گا۔