دنیا تبدیل ہونے کو ہے، انقلاب آنے کو ہے!
تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایسے ادوار میں رونما ہو تے ہیں جب حکمرانی کے نظام بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آکر عوام الناس کی نظروں میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر انقلابیوں کو زیادہ لمبے اور مشکل فلسفے جھاڑنے نہیں پڑتے بلکہ نظام خود اتنا بے نقاب ہوچکا ہوتا ہے کہ سادہ سی بات بہت بڑے عوامی ردعمل کو جنم دے سکتی ہے۔
مثال کے طور پر پہلی جنگِ عظیم جب آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور روس اس جنگ کی تباہ کاریوں سے مکمل بدحالی کا شکار ہوچکا تھا تو لینن نے محض روٹی، امن اور زمین کا نعرہ لگا کر عوام کی ہمدردیاں جیت لیں اور صدیوں پر محیط زار شاہی کا تختہ الٹ دیا۔
ہمارے خطے کی تاریخ میں بھی جنگ سے جنم لینے والے بحران کا بہت بڑا کردار ہے۔ جب 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوا تو دُور دُور تک آثار نہیں تھے کہ برطانوی سامراج کی گرفت ہندوستان سمیت اپنے نو آبادیات پر کمزور پڑے گی، مگر1945ء تک صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی اور انگریز سرکار نے واضح اشارہ دینا شروع کردیا کہ وہ ہندوستان پر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔ پھر ہندوستانی عوام کے اندر آزادی کے جذبات تیزی سے پھلے اور ٹھیک 2 سال کے اندر برطانوی راج اپنے منطقی انجام کو جا پہنچا۔