کورونا وائرس کے بعد ورچؤل کرنسی کی اہمیت اور حیثیت؟
کورونا بحران نے عالمی معیشت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔ بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا کاروباری شخص معاشی سرگرمیوں پر منڈلاتے کورونا کے سیاہ بادلوں کے چھٹنے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔
اس عالمی وبا نے طاقتور معیشتوں کو بھی معاشی میدان میں اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ پوری دنیا میں معاشی سرگرمیاں، پیداوار اور بلندیاں تھم سی گئی ہیں۔ خام اور برنٹ آئل کی قیمتوں میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کی کمی آچکی ہے اور اسٹاک مارکیٹ 2 مرتبہ کریش ہوئی، یقیناً اس عالمی وبا نے ہم تک ناصرف جانی نقصان کی بُری خبریں پہنچائی ہیں بلکہ معاشی نقصان کے نئے ریکارڈ بھی بنوائے ہیں۔
ان ساری خبروں کے بیچ 19 مارچ کو پریس ریلیز کے ذریعے یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اٹلی کے بینک ہائپ نے اپنے صارفین کے لیے بٹ کوائن کی ٹریڈنگ کو کھول دیا ہے۔ کورونا بحران میں کرپٹو کرنسی آخر کیا اہمیت رکھتی ہے؟ اس کا مستقبل کیا ہے؟ کیا ہمیں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے سے گریز کرنا چاہیے؟ آئیے اس بلاگ میں ایسے ہی چند سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کرپٹو کرنسی سے متعلق بنیادی باتوں پر ڈان بلاگز پر پہلے بھی میری تفصیلی تحریر شائع ہوچکی ہے جس کا مطالعہ قارئین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوگا۔
درست تجزیے کا فقدان
سب سے پہلے تو یہ عرض کرتا چلوں کہ آن لائن کاموں کے حوالے سے پاکستان میں اکثر و بیشتر افراد کا تجربہ کوئی زیادہ اچھا نہیں رہتا، اور لوگ آن لائن کاموں کو صرف فراڈ ہی گردانتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں بنیادی وجہ چیزوں پر تجزیہ کرنے کا طریقہ ہے جو ہمارے یہاں اکثر لوگ نہیں جانتے۔
دوسرا یہ کہ پروفیشنل ازم سے زیادہ لوگ فیوریٹ ازم پر تکیہ کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ تر دھوکے اور فراڈ میں اپنی جمع پونجی لگا کر پوری صنعت سے نالاں اور ناراض ہوجاتے ہیں۔
کنسلٹنسی اور ٹریننگ کے لیے اکثر لوگ جب میرے پاس آتے ہیں تو مشورے کے لیے فیس دینے سے بہتر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو مفت میں مشورہ دے رہا ہے اس پر عمل کرکے پیسے بچائے جائیں اور سیانے پن کا ثبوت دیا جائے اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ آن لائن کاموں میں پروفیشنل ازم روایتی کاموں کی نسبت زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
اب عموماً ہوتا یوں ہے کہ ایک بہترین صنعت کے نام پر بدترین فراڈ وجود میں آتے ہیں اور لوگ اس کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔
کرپٹو کرنسی کے تناظر میں اس کی بہترین مثال ون کوائن فراڈ ہے جو کرپٹو کرنسی کا نام لے کر آیا جبکہ نہ تو اس کی اپنی کوئی بلاک چین موجود تھی، نہ کسی پبلک ایکسچینج پر اس کی رجسٹریشن تھی، اور نہ یہ کوائن کرپٹو کرنسیوں کے بنیادی معیارات پر پورا اترتا تھا۔ اب اس جعل سازی کا وہ لوگ شکار ہوئے جو کرپٹو کرنسی کے بنیادی تصور سے بھی ناواقف تھے اور وہ سمجھتے رہے کہ ہم کسی کرپٹو کرنسی کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ صرف ہوائی بات کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
اعداد و شمار
اس وقت کرپٹو کرنسی کا کُل مارکیٹ کیپٹل 200 ارب ڈالر ہے۔ یہ مارکیٹ کی بدترین سطح ہے جبکہ 2017ء کے دسمبر اور 2018ء کے جنوری کے پہلے ہفتے میں مارکیٹ اپنے جوبن پر 800 ارب ڈالر تک پہنچی تھی۔ گوکہ یہ بہت چھوٹا عدد ہے لیکن دیکھا جائے تو 8 برس کے قلیل ترین عرصے میں یہ کسی بھی مارکیٹ میں ایک بہت بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔
صورتحال یہ ہے کہ فاریکس سے متعلقہ تقریباً تمام بروکر اب آپ کو بٹ کوائن سمیت کئی دیگر کرپٹو کرنسیاں ٹریڈ کرنے کی سہولت بھی دیتے ہیں۔ اس سے لیوریجڈ ٹریڈنگ کا آغاز ہوتا ہے جو مارکیٹ میں ایک الگ اثر لے کر آتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج نیو یارک اسٹاک ایکسچینج کا روزانہ کا تجارتی حجم (یعنی خرید و فروخت) تقریباً 200 ارب ڈالر ہے جبکہ موجودہ حالات میں کرپٹو کرنسی مارکیٹ کا روزانہ کا ٹریڈنگ والیوم تقریباً 150 ارب ڈالر کا ہے۔ یعنی یہ مارکیٹ گویا ابھی اپنی کم سنی کی عمر سے گزر رہی ہے لیکن اس کے باوجود تجارتی حجم کے حساب سے اس وقت بھی یہ کسی بھی دوسری مارکیٹ سے ہرگز کم تر نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی بات واضح ہو کہ اس کا حجم روز بروز بڑھتا چلا جارہا ہے۔
کرپٹوکرنسی کا مستقبل
مستقبل کی 100 فیصد درست پیش گوئی کرنا تو کسی کے لیے بھی ممکن نہیں البتہ جو آثار ہیں انہیں مدِنظر رکھتے ہوئے مذکورہ ذیل باتوں کو زیرِغور لایا جاسکتا ہے۔
- کرپٹوکرنسی کی مارکیٹ دن بدن بلندیوں کو چھوتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہنہیں ہے کہ کسی مخصوص ادارے نے اسے سہارا دیا ہوا ہے بلکہ اس کی اصل وجہیہی ہے کہ یہ مکمل طور پر ڈی سینٹرلائزڈ (عدم مرکزیتی پر مبنی) ہے۔ یعنی کسیبھی فردِ واحد یا کسی ادارے کا اس پر کوئی اختیار نہیں۔ اس پر صرف اسیشخص کا کنٹرول ہے جس کے ہاتھ میں یہ کرنسی ہے۔
- روایتی کرنسی اور روایتی منی ٹرانسفر کی نسبت کرپٹو کرنسی پیسے کیترسیل کو بہت زیادہ آسان، برق رفتار اور انتہائی سستا بناتی ہے۔
- چونکہ یہ ایک عدم مرکزیت پر مبنی سسٹم ہے اس لیے کرپٹو کرنسیوں کی مکمل سپلائیکسی ایک ادارے یا فرد کے پاس نہیں ہوتی اور اس میں محدود سپلائی والےکوائن کو مزید چھاپ کر مارکیٹ میں سپلائی بھی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے یہروایتی کرنسی نوٹ کی نسبت زیادہ قابلِ اعتبار اور افراطِ زر یا مہنگائی سےمحفوظ رہتی ہے۔
- اس کے پیچھے جو ٹیکنالوجی ہے اسے بلاک چین ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ اسیبلاک چین کی وجہ سے کوائنز کی جتنی بھی لین دین ہے وہ 100 فیصد شفاف ہوتیہیں جن کی کوئی بھی، کسی بھی وقت آن لائن تصدیق کرسکتا ہے۔ چنانچہ اسمیں کسی قسم کی ہیر پھیر اور چوری کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔یہ وہ خاص نکتہ ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلاک چین کے تحتکام کرنے والا لیجر سسٹم ہماری روایتی کرنسی کے مقابلے میں ہزارہا درجےزیادہ قابلِ اعتبار ہے۔
کورونا وائرس اور کرپٹوکرنسی
کورونا وائرس اور دنیا بھر کے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں اور معاشی سرگرمیوں کو پہنچنے والا نقصان سبھی کے سامنے عیاں ہے۔ تاہم اس وقت 2 چیزیں ہیں جن کو کم سے کم خطرہ ہے اور ان کی پوزیشن بہت حد تک مستحکم ہیں۔ ان میں سے ایک سونا ہے اور دوسری حیران کن طور پر بٹ کوائن ہے۔ اس کی بظاہر وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ ابھی تک اس کی یوٹیلیٹی یا استعمال پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور یہ یقین پختہ تر ہوتا جارہا ہے۔
اس وقت ایسٹونیا، وینزویلا، اسپین، اٹلی، بھارت اور امریکا سمیت 100 سے زائد ممالک میں نہ صرف کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت حاصل ہے بلکہ وہاں یہ صنعت اب روزمرہ زندگی کا حصہ بھی بنتی جارہی ہے۔
کورونا وائرس یا کسی بھی ایسے وبائی مرض میں جہاں مادی یا فزیکل لین دین مشکل ہوجاتی ہے، وہیں کرپٹو کرنسی اور ڈیجیٹل اثاثوں کی اہمیت مزید اجاگر ہوکر سامنے آتی ہے۔ اس وقت کرنے کا کام یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی سے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جائے۔ اس کام کو سیکھا جائے اور جس طرح دیگر ممالک اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اسی طرح پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے بھی اسے استعمال کیا جائے۔
یہ وہ بنیادی نکات ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر میں کرپٹو کرنسیوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آج سے ٹھیک 3 سال پہلے کا چارٹ نکالیں گے تو معلوم ہوگا کہ ایک بٹ کوائن کی قیمت ایک ہزار 200 ڈالر ہوا کرتی تھی۔ یہی قیمت پھر 20 ہزار ڈالر تک بھی گئی اور اس وقت بدترین حالات میں بھی 7 ہزار ڈالر کے قریب ہے۔
دنیا کرپٹو کرنسی کو دھیرے دھیرے قبول کرتی جارہی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ جلد یا بدیر اس کی مقبولیت انتہاؤں کو چھوئے گی۔ یاد رکھیے کہ انتظار کرنے والوں کے ہاتھ بس اتنا ہی آتا ہے جتنا کوشش کرنے والوں سے بچ جاتا ہے۔ تو جناب کمر کسیے، ٹیکنالوجی کو سیکھیے اور اس سے بروقت فائدہ اٹھائیے۔
مزمل شیخ بسمل طب کے طالب علم ہونے کے ساتھ یوٹیوبر، بلاگر سوشل میڈیا مارکیٹر ہیں۔ انٹرنیٹ مارکیٹنگ، بلاگنگ اور آن لائن کاروبار پر اپنی تحقیقات اور تجربات پر مبنی تحریریں فیس بک پیجپر شائع کرتے رہتے ہیں۔
ان کی وڈیوزیہاںدیکھیے
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔