پاکستان

کے الیکٹرک نے 'اوسط بنیاد' پر جاری بل ایک ماہ کیلئے موخر کردیے

جن صارفین نےمارچ کے بل ادا نہیں کیےوہ اپریل میں ریڈنگ کی بنیاد پرجاری ہونےوالے بلوں کےساتھ ادائیگی کرسکتے ہیں،کے الیکٹرک

نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ہدایت پر کے الیکٹرک نے مارچ 2020 کے اوسط بنیادوں پر جاری کیے گئے بل ایک ماہ کے لیے موخر کر دیے۔

نیپرا سے جاری بیان کے مطابق اتھارٹی کو کئی شکایات موصول ہوئی تھیں کہ کے الیکٹرک لمیٹڈ نے کورونا وائرس کی صورتحال کے باعث مارچ 2020 کے بل اوسط بنیادوں پر جاری کیے جو بہت زیادہ ہیں۔

اتھارٹی نے یہ معاملہ حل کے لیے 'کے الیکٹرک' کی انتظامیہ کے سامنے اٹھایا اور انہیں صارفین کو موجودہ صورتحال میں ریلیف دینے کی ہدایت کی۔

اس کے بعد کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صارفین جنہوں نے اوسط بنیادوں پر جاری کیے گئے مارچ 2020 کے بل کی اب تک ادائیگی نہیں کی ہے، وہ ان کی ادائیگی اپریل 2020 میں ریڈنگ کی بنیاد پر جاری ہونے والے بلوں کے ساتھ کر سکتے ہیں، جبکہ اس پر انہیں کوئی سرچارج نہیں دینا ہوگا۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک نے صارفین کے بلوں میں اضافے سے متعلق خبریں مسترد کردیں

کے الیکٹرک کے بیان میں کہا گیا کہ وہ صارفین جنہوں نے مارچ کے بل ادا کر دیے ہیں ان کی اپریل کے بل کی ریڈنگ میں ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی۔

ساتھ ہی کے الیکٹرک نے نیپرا سے مشاورت کے بعد میٹر ریڈنگ کا عمل بحال کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔

کے الیکٹرک نے کہا کہ جن علاقوں میں حفاظتی وجوہات کے باعث میٹر ریڈنگ لینا ممکن نہ ہوا وہاں کے صارفین کے اپریل کے بل 'کم اوسط' کی بنیاد پر جاری کیے جائیں گے۔

حکومت پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے تحت 'کے الیکٹرک' کے وہ رہائشی صارفین جن کے گھروں میں سنگل فیز میٹر لگا ہو اور انہوں نے 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کی ہو انہیں بل کی قسط وار ادائیگی کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگلے 9 مہینے ’کے الیکٹرک‘ کراچی والوں کی جیب سے کتنے اضافی پیسے لے گی؟

واضح ریے کہ کورونا وائرس کے باعث کے الیکٹرک کی انتظامیہ نے مارچ کے بلوں کے لیے میٹر ریڈنگ نہ لینے اور اوسط بنیادوں پر بل جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم شہریوں کی جانب سے بل 'اوسط' سے زیادہ ہونے کی شکایت سامنے آرہی تھی اور کئی شہریوں نے کے الیکٹرک کے دفاتر کا بھی رُخ کیا۔

لیکن انہیں کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے زائد بلوں پر کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا جارہا تھا۔