ووہان میں شادی کے درخواستوں کے آن لائن نظام (جو چینی کمپنی علی پے کے زیرتحت کام کررہا ہے) پر 300 فیصد ٹریفک بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں عارضی طور پر وہ کریش ہوگیا۔
علی پے نے اس بات کا اعلان سوشل میڈیا سائٹ ویبو پر کرتے ہوئے کہا کہ وہ شادی شدہ جوڑوں کو بچوں کے نام تلاش کرنے اور یہ دیکھنے کی سروس بھی فراہم کررہی ہے کہ یہ نام کتنے اور جوڑوں نے اپنے بچوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
چینی ٹیکنالوجی سائٹ اباکوس کی رپورٹ کے مطابق ووہان میں شادی کی درخواستوں کا سلسلہ فروری اور مارچ میں معطل رہا تھا کیونکہ اس دوران ایک کروڑ سے زائد شہری گھروں تک محدود تھے۔
کمپنی نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ وہ اتنے ٹریفک پر حیران رہ گئی جس کے نتیجے میں سسٹم سست ہوگیا مگر اب اس مسئلے پر قابو پالیا گیا ہے۔
جمعے کو شہری انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ شادیوں کی رجسٹریشن سروسز کو جلد کھول رہے ہیں۔
لاک ڈاؤن کو باضابطہ طور پر ختم کیا جارہا ہے مگر حکام نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ بہت زیادہ سماجی میل جول سے گریز کریں۔
چینی نیوز سائٹ سکستھ ٹونز کے مطابق شہری امور کے ادارے کے عہدیدار لی ہانگ کا کہنا تھا کہ چند گھنٹوں کے دوران شہر میں 95 شادیاں رجسٹرڈ ہوئیں جبکہ 46 جوڑوں کی طلاق ہوئی۔
لاک ڈاؤن ختم ہونے پر ائیرپورٹ، ریلوے اور بس اسٹیشنز پر ہزاروں افراد کا رش دیکھنے میں آیا جو شہر سے باہر اپنے گھروں اور ملازمتوں کے لیے جارہے تھے۔
اس وبا سے ووہان اور چین بھر میں ہونے والے اقتصادی نقصانات کا تخمینہ ابھی نہیں لگایا گیا مگر یہ توقعات سے بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔
لاکھوں افراد ملازمتوں سے محروم ہوگئے، مگر شہریوں نے سفری اجازت کو بہت بڑا ریلیف قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ چین کے شہر ووہان سے نئے نوول کورونا وائرس کووِڈ 19کا پھیلاﺅ شروع ہوا تھا جو دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں پھیل گیا۔
چین کا شہر ووہان جنوری سے لاک ڈاؤن تھا، جہاں کسی کو داخلے یا نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور صرف خصوصی اجازت نامے کے ذریعے ہی لوگ باہر نکل سکتے تھے۔
کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت نے ووہان میں 16 عارضی ہسپتال بنانے سمیت ملک کے دیگر صوبوں میں بھی عارضی ہسپتال بنائے تھے جب کہ متعدد شہروں میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے سمیت لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا تھا۔
چین نے عوامی و تفریحی مقامات کو بند کرکے دیگر ممالک سے ملنے والی اپنی زمینی سرحدیں بھی بند کردی تھیں جب کہ فضائی آپریشن کو بھی محدود کردیا تھا۔