چین، اٹلی اور امریکا میں اس حوالے سے ڈیٹا سامنے آرہا ہے جس کو دیکھ کر امراض قلب کے ماہرین کا مانا ہے کہ کووڈ 19 دل کے پٹھوں کو بھی متاثر کرنے والا مرض ہے۔
ایک ابتدائی تحقیق میں ہر 5 میں سے ایک مریض میں دل کو ہونے والے نقصان کو دریافت کیا گیا، جو ہارٹ فیلیئر اور موت کی جانب لے جاتا ہے، حیران کن طور پر ان میں سے بیشتر میں تنفس کے مسائل ظاہر نہیں ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو مریضوں کے حوالے سے سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے خصوصاً بیماری کے ابتدائی مراحل میں۔
نیویارک کے مونٹ فیور ہیلتھ سسٹم کے امراض قلب کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر الرچ جورڈی کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اس سوال کا جواب ڈھونڈا جائے کہ یہ وائرس دل کو متاثر کرتا ہے اور کیا ہم کچھ کرسکتے ہیں؟
ابھی یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا امراض قلب کے مسائل وائرس کا نتیجہ ہے یا جسمانی ردعمل اس کا سبب ہے، مگر دل پر اس کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ بیماری کی شدت میں اضافہ بھی دل کی صحت پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے فینبرگ اسکول آف میڈیسین کے کارڈیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر رابرٹ بونو نے کہا کہ اگر نمونیے سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو ایسا دل کی حرکت رکنے سے ہی ہوتا ہے، جب جسمانی نظام کو مناسب مقدار میں آکسیج نہیں ملے گی تو حالات خراب ہی ہوں گے۔
مگر متعدد ماہرین کا ماننا ہے کہ کووڈ 19 سے دل کو 4 یا 5 انداز سے نققصان پہنچ سکتا ہے، کچھ مریض میں بیک وقت ایسے ایک سے زیادہ طریقوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
طبی ماہرین عرصے سے واقف ہیں کہ کسی بھی سنجیدہ طبی معاملے سے اتنا تنائو پیدا ہوتا ہے جو دل کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ نمونیا جیسی بیماریاں جسم میں ورم کو پھیلا سکتی ہیں، جو کہ شریانوں میں مواد کے اجتماع کا باعث بنتا ہے اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔
ورم سے دل کے پٹھے بھی کمزور ہوسکتے ہیں جس کا نتیجہ ہارٹ فیلیئر کی شکل میں نکلتا ہے۔
مگر ڈاکٹر رابرٹ بونو کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کو ہونے والے نقصان کے مشاہدے سے لگتا ہے کہ یہ وائرس براہ راست دل کے پٹھوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
ابتدائی تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ کورونا وائرس پھیپھڑوں کے مخصوص ریسیپٹرز سے منسلک ہوتا ہے اور یہی ریسیپٹرز دل کے پٹھوں میں بھی دریافت کیے گئے ہیں۔
چین کا ابتدائی ڈیٹا مارچ میں چین کے ماہرین نے 2 تحقیقی رپورٹس جاری کی تھیں جس میں کووڈ 19 کے مریضوں میں دل کے مسائل کے بارے میں بتایا گیا تھا۔
ایک تحقیق میں ہسپتال میں زیرعلاج 416 مریضوں کو دیکھا گیا تھا اور محققین نے دریافت کیا کہ 19 فیصد میں دل کو نقصان پہنچنے کی علامات طاہر ہوئیں اور اس کے نتیجے میں موت کا خطرہ بڑھ گیا۔
ایسے مریض جن کے دل کو نقصان پہنچا ان میں موت کی شرح 51 فیصد تھی۔
ایسے مریض جو پہلے سے امراض قلب کا شکار ہوتے ہیں، ان میں صحتیابی کے بعد دل کا نقصان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے مگر کچھ مریض جو پہلے امراض قلب سے محفوظ تھے، ان میں بھی دل کو نقصان پہنچنے کے آثار نظر آئے اور ان میں موت کا خطرہ پہلے سے امراض قلب کا سامنا کرنے والے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
یہ ابھی واضح نہیں کہ کچھ مریضوں میں دل پر مرتب منفی اثرات کا تجربہ دیگر سے زیادہ کیوں ہوتا ہے، تاہم ڈاکٹر رابرٹ بونو کے مطابق اس کی ممکنہ وجہ جینیاتی عناصر ہوسکتی ہے یا ہوسکتا ہے کہ وہ زیادہ وائرل لوڈ کا شکار ہوئے ہوں۔
رکاوٹوں کا سامنا اس بحران کے دوران ڈیٹا کو جمع کرنا مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے لیے ڈاکٹروں کو دل کے نمونے لے کر تعین کرنا ہوتا ہے کہ دل کے پتھے اس وائرس سے متاثر ہوئے یا نہیں۔
مگر کووڈ 19 کے مریض عموماً اتنے زیادہ بیمار ہوتے ہیں کہ وہ اس مشکل عمل سے نہیں گزر سکتے اور مزید ٹیسٹنگ سے طبی عملے میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
بیشتر ہسپتالوں میں الیکٹرو کارڈیو گرامز کا مریضوں پر استعمال نہیں ہوتا تاکہ اضافی عملے کو آئسولیشن میں موجود مریضوں کے پاس نہ جانے پڑے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے آئیروین میڈیکل سینٹر کے ڈاکٹر ساحل پاریکھ کے ہسپتالوں کو ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے اور طبی ریکارڈ کو جمع کرنا چاہیے تاکہ جاننے میں مدد مل سکے دل کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں معلومات کو جمع کرنا چاہیے اور اسے مریضوں کی مدد کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
درحقیقت مریضوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود ڈاکٹروں کی جانب سے ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے، رجحانات کو دیکھا جارہا ہے اور نتائج کو رئیل ٹائم میں شائع کیا جارہا ہے۔