شوگر ملز والوں نے رمضان میں چینی مہنگی تو سخت فیصلے ہوں گے، شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے واضح کہا ہے کہ اگر رمضان میں شوگر ملز والوں نے چینی مہنگی کی تو ایسے فیصلے کروں گا کہ وہ یاد رکھیں گے۔
نجی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ 'آج کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا کہ چینی و گندم بحران کی رپورٹ میری ہدایت پر جاری کی گئیں اور 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ سامنے آنے کے بعد ذمہ داروں کو نہیں چھوڑوں گا۔'
انہوں نے کہا کہ 'عمران خان نے کہا کہ اگر رمضان میں شوگر ملز والوں نے چینی مہنگی کی تو ایسے فیصلے کروں گا کہ وہ یاد رکھیں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'فرانزک رپورٹ میں یہ بھی سامنے آئے گا کہ چینی برآمد ہوئی بھی ہے یا نہیں کیونکہ میری اطلاعات کے مطابق تقریباً 70 فیصد چینی کابل برآمد کی گئی، ظورخم بارڈر پر صرف کاغذات کی صورت میں ہی چیزیں برآمد ہوتی ہیں اور کاغذات میں ہی پیسے آگئے ہوں گے جس پر برآمد کنندگان نے کہا ہوگا کہ ہم نے سبسڈی لے کر چینی برآمد کی، مطلب یہ دو نمبر کام ہوا ہے۔'
شیخ رشید احمد نے کہا کہ 'اب عمران خان کا اپنا امتحان ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کارروائی عمران خان نے کی، یہ بات ایسے ہی کردی گئی کہ رپورٹ لیک ہوئی، رپورٹ عمران خان کی ہدایت پر جاری ہوئی اور اب گیند ان کے ڈی میں ہے، اس گیند کو بھی ٹھیک نہ کھیلا ہوا تو ان کے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔'
جہانگیر ترین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'وہ عمران خان نے پرانے ساتھی ہیں لیکن اب معاملہ ٹیڑھا ہوگیا ہے۔'
یہ بھی پڑھیں: رپورٹ میں کچھ نہیں ہے،عمران خان سے تعلقات پہلے جیسے نہیں، جہانگیر ترین
چینی کی قیمت بڑھا کر ناجائز منافع کمانے والے شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا، منی لانڈرنگ، کرپشن کرنے والا ایک شخص بھی جیل میں نہیں ہے، جنہوں نے ملک کے خزانے کو لوٹا وہ میری طرح اس وقت کسی ٹی وی چینل پر بیٹھے ہوں گے۔'
شیخ رشید نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف کوئی کارروائی کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ 'مجھے نہیں لگتا ان کے خلاف کارروائی ہوگی اور وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس میں بتایا کہ وزیر خزانہ پنجاب نے کہا کہ انہوں نے سبسڈی کی مخالفت کی تھی۔
ملک میں کورونا وائرس سے متعلق انہوں نے کہا کہ '35 ہزار لوگوں کے ٹیسٹ میں 3500 لوگ وائرس کے شکار نکل آئے ہیں، اگر ہم نے زیادہ ٹیسٹ کیے تو ملک میں نیا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک نجی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق کہنا تھا کہ 'رپورٹ تیار کرنے والوں کو مارکیٹ کے حوالے سے کچھ علم نہیں ہے، اس رپورٹ میں ایک ٹیبل کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، حکومت پالیسی بناتی ہے جس پر عمل کرکے مل مالکان سبسڈی حاصل کرتے ہیں جبکہ سبسڈی منافع نہیں ہوتی۔'
جہانگیر ترین نے کہا کہ 'یہ ابتدائی رپورٹ ہے جس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ گزشتہ 5 سالوں میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دی گئی، میں نے جو کُل سبسڈی لی وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ڈھائی ارب تھی اور اپنی پارٹی کی حکومت میں 56 کروڑ ہے، میں نے 5 سالوں میں 23 ارب روپے ٹیکس دیا ہے اس حساب سے یہ سبسڈی کچھ نہیں ہے۔'
پی ٹی آئی رہنما نے انکشاف کیا کہ 'عمران خان سے جیسے تعلقات پہلے تھے اب ویسے نہیں ہیں، ان کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے میرے 6 ماہ قبل بیوروکریسی کے معاملے پر اختلافات شروع ہوگئے تھے، تاہم عمران خان سے تعلقات جلد بہتر ہوجائیں گے۔'
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ میں رد و بدل، خسرو بختیار اور حماد اظہر کے قلمدان تبدیل
چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ
واضح رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ 4 اپریل کو عوام کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔
معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کہ چونکہ انہوں نے عوام سے رپورٹ منظر عام پر لانے کا وعدہ کیا تھا اس لیے اب یہ وقت ہے کہ وعدہ پورا کیا جائے۔
دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔
تاہم انکوائرہ کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی عوام کو گندم، چینی بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔
ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
کس نے کتنا فائدہ اٹھایا
کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائی کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المُعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔
مزید پڑھیں: گندم کی خریداری میں کمی آٹے کے بحران کی وجہ بنی، رپورٹ
رپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
رپوورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔