لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی
لاہور ہائیکورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اراضی الاٹمنٹ کیس میں گرفتار کیے گئے جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کردی۔
جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے میر شکیل الرحمٰن اور ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
قبل ازیں عدالت میں نیب کی طرف سے اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری اور عاصم ممتاز جبکہ میر شکیل الرحمٰن کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت نیب استغاثہ سید فیصل بخاری نے عدالت کو بتایا میر شکیل کو 26 سوالات دیے گئے اور انہوں نے نیب کے تمام سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا۔
مزید پڑھیں: ڈی جی نیب کی ڈگری سے متعلق بات کرنے پر میر شکیل کو گرفتار کیا گیا، اعتزاز احسن
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کو ویڈیو لنک کے ذریعے میر شکیل الرحمٰن کے کیس کے حقائق سے آگاہ کیا گیا تھا، ’آج کل تو سپریم کورٹ میں اور حکومتی فیصلے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ کیس کی تمام کارروائی چیئرمین نیب کے علم میں ہے اور ان کی ہدایات پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن نے شریک ملزم میاں نواز شریف کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر پلاٹوں پر استثنیٰ حاصل کی، انہیں پالیسی کے خلاف پورا بلاک الاٹ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی تاریخ کا یہ پہلا کیس ہے جس میں کسی کو غیر معمولی رعایت دی گئی ہے، احتساب عدالت نے بھی قرار کیا کہ معاملے کی مزید انکوائری کی ضرورت ہے‘۔
نیب استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ’میر شکیل کو 14 جولائی 1986 میں استثنیٰ دی گئی، 180 کنال کی زمین کے عوض ایک ہی درخواست دی گئی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میر شکیل نے عبوری تعمیر کی اجازت مانگی تھی تاہم انہیں استثنیٰ بھی دے دی گئی‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایل ڈی اے نے میر شکیل کو پلاٹ الاٹ کرتے ہوئے 2 سڑکیں بھی شامل کر دیں، انہوں نے ایل ڈی اے سے ملاقات کی اور خواہش کا اظہار کیا کہ اسے ایک ہی بلاک میں 54 کنال زمین پر استثنیٰ دی جائے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف نے میر شکیل الرحمٰن کی درخواست پر استثنیٰ کی منظوری دی اور سمری منظور کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میر شکیل کو خصوصی رعایت دی جائے اور اس کیس کو دوبارہ مثال نہ بنایا جائے‘۔
نیب استغاثہ کا کہنا تھا کہ ’ریکارڈ کے مطابق میر شکیل کی اراضی 2 مختلف جگہوں پر واقع تھی، ملزم کو خصوصی رعایت کے ذریعے ایک ہی بلاک میں 54 کنال زمین الاٹ کر دی گئی‘۔
جسٹس سردار احمد نعیم نے سوال کیا کہ کیا پالیسی میں ایسا ہے کہ سڑک بھی استثنیٰ میں شامل کی جاسکتی ہے جس پر نیب نے جواب دیا کہ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا، سڑک ہمیشہ سڑک ہی رہتی ہے۔
عدالت میں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل اعتزاز احسن نے استدعا کی کہ ان کے موکل بیمار ہیں انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف اراضی کیس میں نواز شریف کو طلب کرلیا
ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کہیں بھاگیں گے نہیں، ان سے زر ضمانت یا شیورٹی لے لی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’2 سڑکیں ایل ڈی اے بعد میں ایکوائر کر سکتا ہے، نیب کے جواب میں کسی ویڈیو لنک کا ذکر نہیں ہے اور نیب تسلیم کر رہا ہے کہ ابھی انکوائری مکمل نہیں ہوئی تو پھر کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیوں کیا گیا‘۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ ’نیب تسلیم کر رہا ہے کہ میر شکیل پر بزنس مین پالیسی کا نفاذ ہوتا ہے، وارنٹ گرفتاری پہلے جاری کر دیا اور انکوائری بعد میں کی گئی ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’نیب نے میر شکیل کی تمام کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی وہ منگوا لی جائے اور سوال نامہ لینے دینے کی بات سامنے آجائے گی‘۔
بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے دونوں فریقینن کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد میر شکیل کی ضمانت کی درخواستیں خارج کر دیں۔
واضح رہے اس سے قبل 2 اپریل کو لاہور ہائی کورٹ میں اعتزاز احسن نے دلائل دیے تھے۔
جسمانی ریمانڈ میں توسیع
دوسری جانب میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کے دوران احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے نیب کی درخوست قبول کرلی۔
نیب کی جانب سے میر شکیل کے مزید 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
استغاثہ عاصم ممتاز نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت پر رہائی کی درخواستیں خارج کر دی ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بڑا ریکارڈ ضبظ کیا جا چکا ہے، نیب نے جوہر ٹاؤن کا اصل نقشہ ایل ڈی اے سے منگوایا ہے، میر شکیل کو بے مثال نوازشات کی گئیں‘۔
احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے استفسار کیا کہ اس وقت کے وزیراعلٰی نواز شریف کا پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں کیا کردار تھا جس پر نیب استغاثہ نے جواب دیا کہ نیب نے نواز شریف کو سوالنامہ تیار کر کے بھیجا ہے مگر بد قسمتی سے اس وقت کے وزیراعلٰی پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔
جج نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت کے وزیراعلی نے پالیسی میں کوئی نرمی کی تھی جس پر استغاثہ نے بتایا کہ اس وقت کے وزیراعلی نواز شریف نے میر شکیل کو خصوصی رعایت دی تھی۔
عدالت میں میر شکیل الرحمٰن کے وکیل نے کہا کہ الزامات کی نوعیت کے بارے میں کورٹ کو پہلے سے علم ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ مزید جسمانی ریمانڈ بنتا ہے کہ نہیں‘۔
انہوں نے مؤقف اپنایا کہ نیب کی جانب سے وہی پرانی باتیں کی جارہی ہیں، میر شکیل الرحمن سے کوئی ریکوری نہیں کرنی تو پھر ریمانڈ کیوں مانگا جارہا ہے۔
بعد ازاں احتساب عدالت نے میر شکیل کے جسمانی ریمانڈ میں 18 اپریل تک توسیع کر دی۔
میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری
خیال رہے کہ 12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔
ترجمان نیب نوازش علی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے جمعرات کو دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔
نیب کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 1986 میں غیر قانونی طور پر یہ زمین میر شکیل الرحمٰن کو لیز پر دی تھی۔
واضح رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔
دوسری جانب جنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے، جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔
بعد ازاں گرفتاری کے اگلے ہی روز نیب نے انہیں احتساب عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا تھا جس میں 25 مارچ کو ہونے والی پیشی پر 13 روز کی توسیع کی گئی تھی۔