’وزارت صحت فوری طور پر رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو دفتر جانے کی اجازت دے‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت صحت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) جانے سے روک دیا اور حکم دیا کہ رجسٹرار پی ایم ڈی سی دفتر میں بیٹھیں اور کم سے کم اسٹاف کے ساتھ کام کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالت کے حکم کے باوجود پی ایم ڈی سی کی عدم بحالی کے خلاف رجسٹرار کی دائر کردہ توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت میں عدالت کے حکم پر سیکریٹری صحت تنویر احمد قریشی اور ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) اسلام آباد حمزہ شفاعت عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ڈی سی صاحب یہ بتائیں کہ کیا پی ایم ڈی سی سیل ہے؟ جس پر حمزہ شفاعت نے بتایا کہ پی ایم ڈی سی سیل نہیں ہے بلکہ عدالتی حکم پر ہم نے رجسٹرار کو دفتر میں بھی بٹھایا تھا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ضلعی انتظامیہ کے پاس ان دنوں کرنے کو بہت کام ہے چھوٹے سے ادارے پر اپنا وقت ضائع مت کریں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کو پی ایم ڈی سی کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم، تحریری فیصلہ جاری
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ یہ غیرضروری صورتحال ہے جو وفاقی حکومت پیدا کر رہی ہے، ضلعی انتظامیہ کا کام ہے کہ اس صورتحال سے احسن طریقے سے نمٹے۔
سیکریٹری صحت نے مؤقف اختیار کیا کہ ملازمین کے علاوہ پی ایم ڈی سی کے باہر تخریب کار بھی موجود تھے جو تخریب کاری کرنے آئے تھے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ پی ایم ڈی سی کے کتنے ملازمین کام کریں گے اس کا تعین رجسٹرار پی ایم ڈی سی اسی طرح کریں گے جس طرح وزارت صحت میں ملازمین کی تعداد کا تعین سیکریٹری صحت نے کرنا ہے اپنی اپنی حدود میں رہیں۔
اس موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی کا سیکریٹری صحت سے مکالمہ ہوا، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ سینئر افسر ہیں اس موقع پر اپنا آپ خراب نہ کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ایسا نہ کریں کہ آپ کو بتانا پڑے کہ قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کیسے کروایا جاتا ہے، وفاقی حکومت کو آج کل بہت کام ہے کورونا سے نمٹنا اس کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیکریٹری صحت اس سے پہلے تو کبھی پی ایم ڈی سی نہیں گئے اب کیا مسئلہ ہے، رجسٹرار عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں کرے گا تو عدالت اس کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔
مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی بحال، پاکستان میڈیکل کمیشن تحلیل کرنے کا حکم
سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں خود بھی ڈاکٹر ہوں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے متعلق بتا رہا ہوں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ڈاکٹر کے لائسنس کی تجدید نہ ہو رہی ہو اور وہ سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہو تو کیسا لگے گا؟
جس پر سیکریٹری صحت نے بتایا کہ میں نے ابھی 15 دن پہلے سیکریٹری وزارت صحت کا عہدہ سنبھالا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آج آپ کو عدالت نے آخری بار طلب کیا ہے، ایسا کام مت کریں جس کا جواب نہ دے سکیں، وفاقی حکومت اس سے پہلے پی ایم ڈی سی کے ساتھ ایسا سلوک کر کے پوری دنیا میں تذلیل کروا چکی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ڈاکٹرز کی تذلیل ہو رہی ہے کہ انہی کی حکومت نے ان کے ریگولیٹر کو ہی ختم کر دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ اس حکومت میں کوئی شخص ہے جس کے دماغ میں یہ بات پھنسی ہوئی ہے کہ پی ایم ڈی سی نہیں ہونا چاہیے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ وزارت صحت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کا کوئی بندہ پی ایم ڈی سی نہیں جائے گا جس پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ پی ایم ڈی سی میں لوگوں کا حساس ریکارڈ پڑا ہوا ہے وہ غائب ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایم ڈی سی کیس: 'حکومت عدالت کی توہین کر رہی ہے، وزیراعظم کو شرم آنی چاہیے'
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریکارڈ پی ایم ڈی سی کا پڑا ہے اور رجسٹرار سرکاری عہدیدار ہے تو وہ اس کا ذمہ دار ہے جس پر سیکریٹری صحت نے استدعا کی کہ پی ایم ڈی سی میں موجود حساس ریکارڈ عدالت اپنی تحویل میں لے لے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے تنبیہ کی کہ اگر کوئی بھی ریکارڈ غائب ہوا تو رجسٹرار کے خلاف کارروائی ہو گی تاہم رجسٹرار نے عدالت کو اطمینان دلایا کہ میں عہدہ سنبھالوں گا تو تمام اسٹاف کا ذمہ دار میں ہوں گا۔
رجسٹرار پی ایم ڈی سے نے عدالت کو بتایا کہ سیکریٹری صحت کی جانب سے وزارت صحت کے اسٹاف کے ساتھ کام کرنے کی تجویز دی گئی جس سے انکار کردیا ہے، میں نے 41 لوگوں کی لسٹ تیار کی ہے جن کے ساتھ ہم پی ایم ڈی سی میں کام کریں گے۔
رجسٹرار پی ایم ڈی سی نے مزید کہا کہ پی ایم ڈی سی میں 30 ہزار ڈاکٹروں کی رجسٹریشن زیر التوا ہے۔
سیکریٹری صحت نے اعتراض اٹھایا کہ اگر 45 لوگ پی ایم ڈی سی میں اکٹھے ہوں گے تو کورونا کی وبا پھیلنے کا خدشہ ہے، میری ترجیح ڈاکٹرز ہیں۔
جس پر عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تو اسی لیے ڈاکٹروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کر رہے ہیں جو باعث شرم ہے۔
سیکریٹری صحت نے کہا کہ میرے پاس جو بھی فریادی آیا ہے میں نے اس کو سنا ہے جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فریادی کیا، یہ کوئی بادشاہ کا محل ہے جہاں پر فریادی آئیں گے، آپ پبلک سرونٹ ہیں، یہ جو دماغ میں بادشاہت چھپی ہوئی ہے اس کو نکال دیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ اس وقت ڈاکٹرز ہی فرنٹ لائن پر ہیں ان کو اعتماد دلائیں، یہ معمول کے حالات نہیں بلکہ جنگ کا سماں ہے۔
مزید پڑھیں: پی ایم ڈی سی سے متعلق فیصلے کی خلاف ورزی، سیکریٹری صحت کو توہینِ عدالت کا نوٹس
ان کا مزید کہنا تھا کہ اہم ترین حالات ہیں یہ ایک دو ہفتے ہیں اگر اس سے نکل گئے تو نکل جائیں گے۔
عدالت نے سیکریٹری صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار صاحب جو کام کریں گے اس کی آپ کو رپورٹ دیں گے تاکہ آپ کو یہ نہ لگے کہ یہ دشمن ہیں، دشمن ملک سے آئے ہیں یا خلائی مخلوق ہیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت ایڈہاک کونسل کو بھی کام نہ کرنے دے کر سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ پی ایم ڈی سی اپنا کام کرے، کونسل بنے گی تو وہ ان کاموں کی توثیق کر دے گی اگر نہیں کرے گی تو کالعدم ہو جائیں گے۔
سیکریٹری صحت نے عدالت سے درخواست کی کہ عدالت ہدایت دے کہ پی ایم ڈی سی کے ملازمین وہاں جا کر ہلا گلا نہ کریں جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا یہ اپنے ہی دفتر میں جا کر توڑ پھوڑ کریں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو ہدایت کی کہ روز مرہ کا کام کریں تاکہ دنیا میں یہ تاثر جائے کہ پی ایم ڈی سی بحال ہو گیا ہے اور اگر اس دوران لاء اینڈ آرڈر کا کوئی معاملہ ہو تو ڈی سی صاحب اپنا قانونی اختیار استعمال کریں۔
عدالت نے حکم دیا کہ وزارت صحت فوری طور پر اپنی سیکیورٹی ہٹا کر رجسٹرار پی ایم ڈی سی کو دفتر جانے کی اجازت دے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے سیکریٹری صحت سے کہا کہ میں بار بار آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ جہاں سے آپ آئے ہیں وہاں تو بات سمجھ نہیں آتی، سیکریٹری نے عدالت کو جواب دیا کہ سر میں تو جنیوا سے آیا ہوں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کو واپس جنیوا جاتے دیر نہیں لگے گی، بار بار کہہ رہا ہوں سمجھ جائیں۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 13 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔
سماعت کے بعد سیکریٹری صحت تنویر قریشی سے میڈیا نمائندوں نے سوالات کیے تاہم وہ جوابات دیے بغیر عدالت سے روانہ ہوگئے۔
توہین عدالت کی درخواست
واضح رہے توہین عدالت کی تازہ درخواست پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) حافظ الدین احمد صدیقی کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں وفاقی وزارت صحت، سیکریٹری صحت اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے علاوہ دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ 11 فرروی کو عدالت نے پی ایم ڈی سی اور اس کے ملازمین کو بحال کیا تھا لیکن سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری صحت نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ 30 مارچ کو ہونے والی سماعت جوائنٹ سیکریٹری نے عدالت کو عدالتی حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے گمراہ کیا کہ عمارت کو کھول کر رجسٹرار کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
پی ایم ڈی سی تنازع
خیال رہے کہ صدر عارف علوی نے 20 اکتوبر کو پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کردیا تھا۔
آرڈیننس کے نفاذ کے ساتھ ہی حکومت نے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس کی منظوری کے تناظر میں پاکستان کے تمام میڈیکل اور ڈینٹل ڈاکٹروں کی لائسنسنگ اور رجسٹریشن سے متعلق انتہائی اہم ریکارڈز اور میڈیکل اور ڈینٹل اداروں کی حفاظت کے لیے فوری ایکشن لیا تھا۔
جس کے بعد وزارت برائے قومی صحت (این ایچ ایس) نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے پاکستان میڈیکل کونسل کی عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
بعدازاں 28 اکتوبر کو پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کونسل کو تحلیل کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
چنانچہ اس درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 فروری 2020 کو پی ایم ڈی سی اور اس کے تمام ملازمین کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ملازمین نے توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی، ملازمین نے مؤقف اپنایا تھا کہ پی ایم ڈی سی کی عمارت کو سیل کردیا گیا ہے اور ملازمین کو داخل نہیں ہونے دیا جارہا۔
مذکورہ درخواست کی سماعت میں ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پی ایم ڈی سی کے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ رجسٹرار پی ایم ڈی سی عہدے کا چارج سنبھال کر قانون کے مطابق فرائض سرانجام دیں اور کورونا وائرس کے حوالے سے حکومت کی پالیسی پر عملدرآمد کریں۔