اس کے علاوہ دیگر چینی شہروں میں انتظامی اقدامات کی اقسام کو بھی دیکھا گیا اور ان کا موازنہ روزانہ کی بنیاد پر نئے کیسز کی تعداد سے کیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہمارے کام کا ایک حیرت انگیز پہلو ڈیٹا اسٹریم جیسے موبائل فون کی نقل و حرکت کے ڈیٹا کی طاقت کا اظہار ہے، ہم جس وقت پر تحقیق کررہے تھے اس میں موسم بہار کا میلہ اور چینی نئے سال کا آغاز بھی شامل تھا، ہم ووہان سے آنے اور جانے والوں کے سفری رجحانات کا موازنہ وبا کے دوران کرنے میں موسم بہار کے 2 سابقہ میلوں کے موبائل ڈیٹا کی مدد سے کرنے میں کامیاب رہے۔
اس ڈیٹا کی مدد سے محققین یہ تعین کرنے کے قابل ہوسکے کہ ملک گیر سفری پابندی ممکنہ طور پر ووہان سے باہر لاکھوں کیسز کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکی۔
محققین کے مطابق تجزیے سے انکشاف ہوا کہ 23 جنوری کو عائد کی جانب والی پابندیوں کے نتیجے میں نقل و حرکت میں ڈرامائی کمی آئی، اس ڈیٹا کی بنیاد پر ہم یہ تخمینہ لگانے میں کامیاب ہوسکے کہ ووہان سے باہر کیسز کی تعداد میں کتنی ممکنہ کمی آئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ چونکہ چینی حکام نے ووہان کو وبا کی ابتدا پر بند کردیا تھا، جس کی بدولت دیگر شہروں کو اتنا وقت مل سکا کہ وہ آبادی میں اس وائرس کے بتدریج پھیلائو کے خلاف مناسب اقدامات کرسکیں۔
تحقیق کے مطابق اس کی بدولت 130 سے زائد شہروں میں کووڈ 19 کی آمد کو التوا میں ڈالنے میں مدد مل سکی۔
چینی حکومت کے اقدام سے دیگر شہروں کو مختلف اقدامات جیسے عوامی اجتماعات پر پابندی، پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش اور عوامی مقامات بند کرنے کی منصوبہ بندی کا وقت مل سکا۔
مجموعی طور پر ووہان سے باہر دیگر شہروں میں منظم ردعمل کے نتیجے میں ہر جگہ پہلے ہفتے میں کووڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد 33 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔
تاہم محققین نے اتباہ کیا کہ چین میں وبا دوبارہ پھیلنے کا بھی امکان ہے کیونکہ چین کی بہت کم آبادی اس وائرس کا شکار ہوئی، اب بھی بڑٖی تعداد میں لوگ اس کے خطرے سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا بھی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں یہ کورونا وائرس عالمی سطح پر فلو کی طرح پھیلے یعنی سیزنل وائرس بن جائے گا۔