ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جن لوگوں کو یہ ویکسین دی گئی ہے انہیں کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے کیسز اور اموات کی شرح ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں یہ ویکسین اب استعمال نہیں ہوتی، جیسے امریکا، اٹلی، اسپین اور فرانس۔
پاکستان، بھارت، چین اور کئی ممالک میں یہ ویکسین اب بھی عام استعمال ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج medRxiv میں شائع ہوئے اور محققین کا دعویٰ تھا کہ جن ممالک میں اس ویکسین کا استعمال ہورہا ہے وہاں کووڈ 19 سے اموات کی شرح نمایاں حد تک کم ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال تاخیر سے ہوا جیسے ایران جہاں 1984 میں اسے اپنایا گیا، وہاں بھی اموات کی شرح زیادہ ہے، جس سے اس خیال کو توقیت ملتی ہے کہ بی سی جی ایسے بزرگ افراد کو تحفظ فراہم کررہی ہے، جن کو بچپن میں یہ ویکسین استعمال کرائی گئی۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس ویکسین کے استعمال کرنے والے ممالک میں کووڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد بھی کم رہنے میں ممکنہ مدد ملی ہے۔
اس ویکسین میں ٹی بی کی ایک قسم کا زندہ اور کمزور جراثیم ہوتا ہے، جو جسم کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بی سی جی ویکسین کا بڑے پیمانے پر استعمال کووڈ 19 پھیلانے والے افراد میں کمی لاسکے گا جبکہ دیگر اقدامات کے ذریعے اس کے پھیلائو میں کمی لانا ممکن ہوجائے گا۔
محققین کا کہنا تھا کہ چین میں اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں 1966 سے 1986 کے ثقافتی انقلاب کے دوران ٹی بی کی روک تھام اور علاج کرنے والے ادارے معطل اور کمزور ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہوئے۔
اس ویکسین کی تاریخ بھی غیرمعمولی ہے جس کو بنانے کا خیال اس وقت سامنے آیا جب طبی ماپرین نے مشاہدہ کیا کہ دودھ دوہنے والی خواتین ٹی بی سے محفوظ رہتی ہیں۔
اس ویکسین کا نام اسے بنانے والوں ڈاکٹر البرٹ کالمیٹی اور ڈاکٹر کامیلی گیورن پر رکھا گیا جو انہوں نے 1900 کے اوائل میں ٹی بی کی ایسی قسم سے تیار کی جو مویشیوں کو متاثر کرتی ہے۔
اس ویکسین کی ایک دہائی تک جانوروں پر آزمائش کے بعد پہلی بار 1921 میں اسے انسانوں کو استعمال کرایا گیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اسے دنیا بھر میں عام استعمال کیا جانے لگا۔