کورونا وائرس کے بحران میں سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد پر ایک نظر


کورونا وائرس ہم تک صرف پہنچا ہی نہیں، بلکہ اس نے ہمیں حیرت میں بھی مبتلا کردیا ہے۔
اس سے نمٹنے کے لیے اب پاکستان نے بھی کمر کس لی ہے۔ حکومتیں اس کے پھیلاؤ پر ضابطہ لانے کی تگ و دو کر رہی ہیں۔ موجودہ بحران کی صورتحال میں چند سیاستدانوں اور افسران کی مشکل حالات کے باوجود کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سطحوں پر ہمارے چند رہنما بھی ان دیکھے دشمن کے خلاف متاثر کن لڑائی لڑ رہے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا
وائرس کے خلاف قومی کوششوں کے چہرے کے طور پر ڈاکٹر ظفر مرزا روزِ اوّل سے محاذ پر سرگرمِ عمل ہیں۔ انہوں نے مرکز کی سطح پر ہونے والے تمام اقدامات کو مربوط بنانے جبکہ صوبوں نے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے زمینی معاملات کو سنبھالنے میں متاثر کن کام کیا ہے۔
انہوں نے وزارتِ صحت کو جنگ جیسے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رکھنے اور شہریوں تک معلومات کی فراہمی میں مرکزی کردار بھی ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کی شخصیت میں وہ پُرسکون اور غیر جذباتی انداز جھلکتا ہے جس کی ایک ایسے وقت میں بہت زیادہ ضرورت ہے جب شہریوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔
مراد علی شاہ
انہوں نے ہی سب سے پہلے بحران کی سنگینی کو بھانپا تھا اور سب سے پہلے غیر معمولی ایکشن لیا۔ مشکل فیصلے لینے والی وہ پہلی شخصیت تھے اور پوری صوبائی مشینری کو اس کام پر لگانے میں بھی انہوں نے پہل کی تھی۔ نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ محض چند ماہ کے اندر ہی وہ اپنی حکومت اور اپنی جماعت کی ساکھ کو بدلنے میں کامیاب رہے ہیں۔
مرتضیٰ وہاب
سندھ کی متاثرکن کارکردگی کا ایک اہم عنصر معلومات کی تیز، بروقت، واضح اور شفاف فراہمی ہے جو مرتضیٰ وہاب کی وجہ سے ممکن ہوسکی۔ وزیراعلیٰ کے نوجوان معاون کے طور پر انہوں نے ایک ایسے وقت میں مؤثر رابطہ کاری کے گراف کی نئی بلندیوں کو چھوا ہے جب اس قسم کی رابطہ کاری ایک دانشمندانہ پالیسی اور معقول فیصلوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ مرتضیٰ وہاب کی بروقت اطلاعات کی فراہمی کی بدولت حکومتِ سندھ کے اقدامات کی گونج پیدا ہوئی۔
ڈاکٹر عذرا پیچوہو
سندھ کی اچھی کارکردگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹیم نے بروقت تحرک لیا۔ ایک طرف جہاں وزیرِاعلیٰ نے فیصلہ کن طرز اپنایا اور مرتضیٰ وہاب نے اطلاعات فراہم کرنے میں عمدہ کردار ادا کیا وہیں ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اس سیاسی وزن کو بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے جو معاملات کو آگے بڑھانے اور انہیں انجام تک پہنچانے کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ وہ سندھ کی صوبائی وزیرِ صحت ہونے کے ساتھ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی ہم شیرہ بھی ہیں۔ وہ نہ صرف مسلسل وزیرِاعلیٰ کے شانہ بشانہ رہی ہیں بلکہ پالیسی اور عملی اقدامات کے معاملات پر پیش پیش بھی رہی ہیں۔