‘یہ کورونا ختم تو نہیں ہوگا ناں مام؟’

قرنطینہ
‘صحتیاب ہوکر گھر جارہے ہیں، کیسا لگ رہا ہے؟’
نرس نے بڑے میاں کو قرنطینہ کے مرکز سے رخصت کرتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔
سفید سر جُھکا اور درد میں لپٹی ہنسی کراہ اٹھی۔
‘تبدیلی کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں تو پہلے بھی قرنطینہ ہی میں تھا۔ گھر کے ایک کمرے میں بے کار سامان کی طرح پڑا۔’
تعلق
‘یہاں کھڑے کیا سناٹا دیکھ رہے ہیں؟’
‘یار دیکھ رہا ہوں شاید کوئی سگریٹ پیتا بندہ نظر آجائے تو اس سے سگریٹ لے لوں۔’
نظریں دوبارہ خالی سڑک پر رواں ہوگئیں۔
‘ارے پڑوس سے لے لیں ناں، وہ باپ بیٹے دونوں سگریٹ پیتے ہیں۔’
‘واہ بھئی تمہیں پڑوس کی بڑی خبر ہے۔’
‘کیوں نہ ہو 15 سال سے یہیں رہ رہے ہیں، دونوں یہیں گیلری میں کھڑے سگریٹ پھونک رہے ہوتے ہیں۔’
‘اچھا ان سے جاکر مانگتا ہوں۔’
دروازے کی طرف بڑھتے قدم یکایک رک گئے۔
‘یہ تو بتاﺅ پڑوسی کا نام کیا ہے؟’
اس نے مُڑ کر سوال کیا تو بیوی سوچ میں پڑگئی۔
سوال
‘مام! آج ڈیڈی گئے نہیں؟’
8 سالہ شیری نے بیڈ پر سوتے باپ کو دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔ بزنس کو بڑھانے میں مصروف باپ رات کو جب گھر میں قدم رکھتا تو شیری سوچکا ہوتا تھا۔
‘آج سے ڈیڈی گھر پر رہیں گے، حکومت نے حکم دیا ہے سب گھر پر رہیں کورونا کی وجہ سے۔’
شیری نے کورونا کے بارے میں کچھ اسکول میں سنا تھا، کچھ ٹی وی سے جانا تھا، بوتیک میں پیسہ بڑھانے اور جم میں چربی گھٹانے کی سرگرمیوں میں مصروف ماں کو بچے کو کچھ بتانے کی فرصت کب تھی، بس کورونا کا سرسری سا تذکرہ کرکے ایک ہدایت نامہ جاری کردیا تھا۔
‘تو آپ بھی نہیں جائیں گی مام؟’
وہ بستر سے اچھل کر ماں کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
‘نہیں’، ماں نے موبائل سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
‘واﺅووو۔’
بچے نے تالی بجائی۔
پھر کچھ سوچ کر ماں کی ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر بولا:
‘کورونا ختم تو نہیں ہوگا ناں مام؟’
جانے وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔
ایک دن کیا ہُوا
ہر طرف سناٹا تھا مگر میرے پورے وجود میں 2 جملے شور مچارہے تھے، جن میں سے ایک میرے دوست نے اس وقت بولا تھا جب میں نے اس کے سامنے اپنے بیٹے کے ملائم گالوں کو زوردار تپھڑوں سے سرخ کردیا تھا، بس اس بات پر کہ اس کے ننھے ہاتھوں میں تھمی پیالی سے چائے چھلک گئی تھی جو وہ میرے دوست کے لیے ڈرائنگ روم میں لایا تھا۔
‘بچوں سے اتنی سختی اچھی نہیں ہوتی، باغی ہوجاتے ہیں۔’
بیوی کے منہ سے بس ‘جی اچھا نکلا’۔ ماں اور بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی چھاگئی۔
‘امّی اب تو ابّو سارا دن گھر پر ہوں گے، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، ہم دونوں کو نانی کے ہاں بھیج دیں۔’
میرا بیٹا ماں کا دامن پکڑے التجا کر رہا تھا۔
‘ہاں امّی پلیز’، بیٹی نے بھائی کی تائید کی۔
مزید کچھ سنے بغیر میں تیزی سے باہر نکل گیا۔
اس وقت سے دوست اور بیٹے کے جملے مجھ میں چیخ رہے تھے۔
اگلے دن ناشتہ کرتے ہی میں باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو میرے ہاتھ میں لوڈو تھا۔
میرے بلانے پر بیوی بھی آکر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں سارا گھر ہمارے شور اور قہقہوں سے بھر رہا تھا۔
‘جی امّی’ کہہ کر وہ کال سننے لگی، پھر اچھا امّی کہتے ہوئے موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
‘تمہارے ماموں تم دونوں کو لینے آرہے ہیں’، اس نے بچوں کو مخاطب کیا۔ میرے دل پر گھونسا سا لگا۔
‘منع کردیں ہمیں کہیں نہیں جانا۔’
بیٹے نے گوٹیں جماتے ہوئے فیصلہ سنادیا۔
‘ہاں ہم اپنے گھر پر ہی رہیں گے’
بیٹی تیزی سے اٹھی اور پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر جھول گئی۔
ضرورت
‘ٹھک ٹھ،ٹھکااااا ٹھکاک ٹھکاک’ سماعت چٹخاتی کرخت آوازیں میرے مطالعے میں مخل ہونے لگیں۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔