‘بچوں سے اتنی سختی اچھی نہیں ہوتی، باغی ہوجاتے ہیں۔’
میں نے سنی ان سنی کردی تھی۔
یہ تو میرا روز کا معمول تھا۔ دفتر کی تلخیاں، بسوں کے دھکے، کم آمدنی کا رنج سب غصہ بن کر مجھ میں دھاڑتے رہتے اور میں بیوی، 10 سال کے بیٹے اور 8 سالہ بیٹی پر چنگھاڑتا رہتا۔
میں بیوی کو جھاڑنے اور بچوں کو مارنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ سو جب میں شام ڈھلے گھر میں داخل ہوتا تو ڈری ہوئی بیوی اور سہمے ہوئے بچے لرزتے سلام سے میرا استقبال کرتے پھر اتنے محتاط ہوجاتے کہ ان سے کوئی غلطی سرزد ہوکر ہی رہتی اور میرے دن بھر کے دبے غصے کو پھوٹ نکلنے کا موقع مل جاتا۔ جانتا تھا غلط کر رہا ہوں، اندر سے بار بار آواز اٹھتی کہ اپنا رویہ بدل لو، مگر جس خول میں خود کو بند کرچکا تھا اسے توڑنا اپنے بس کی بات نہیں لگتی تھی۔
آج دفتر سے ہدایت ملی تھی کہ کورونا کی وبا کے باعث اب گھر پر رہ کر ہی کام کرنا ہے۔ میں نے گھر پہنچتے ہی سپاٹ آواز میں اعلان کردیا ‘کل سے مجھے جلدی مت اٹھانا۔ اب کئی دنوں تک آفس نہیں جانا’۔
بیوی کے منہ سے بس ‘جی اچھا نکلا’۔ ماں اور بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموشی چھاگئی۔
میں کھانا کھاکر لیٹ گیا۔ پھر خیال آیا سگریٹ خریدکر رکھ لوں جانے کل ملے نہ ملے۔ کمرے سے بار نکلتے ہی کانوں میں پڑنے والی آواز نے میرے قدم روک لیے۔
‘امّی اب تو ابّو سارا دن گھر پر ہوں گے، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، ہم دونوں کو نانی کے ہاں بھیج دیں۔’
میرا بیٹا ماں کا دامن پکڑے التجا کر رہا تھا۔
‘ہاں امّی پلیز’، بیٹی نے بھائی کی تائید کی۔
مزید کچھ سنے بغیر میں تیزی سے باہر نکل گیا۔
اس وقت سے دوست اور بیٹے کے جملے مجھ میں چیخ رہے تھے۔
اگلے دن ناشتہ کرتے ہی میں باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو میرے ہاتھ میں لوڈو تھا۔
‘آؤ بھئی لوڈو کھیلیں۔’
میری آواز پر دونوں بچے آنکھوں میں حیرت لیے میرے پاس آبیٹھے۔ ‘تم بھی آﺅ یار، چھوڑو کام وام ہوتے رہیں گے’۔
میرے بلانے پر بیوی بھی آکر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی دیر میں سارا گھر ہمارے شور اور قہقہوں سے بھر رہا تھا۔
اچانک بیوی کا موبائل بج اٹھا۔
‘جی امّی’ کہہ کر وہ کال سننے لگی، پھر اچھا امّی کہتے ہوئے موبائل ایک طرف رکھ دیا۔
‘تمہارے ماموں تم دونوں کو لینے آرہے ہیں’، اس نے بچوں کو مخاطب کیا۔ میرے دل پر گھونسا سا لگا۔
‘منع کردیں ہمیں کہیں نہیں جانا۔’
بیٹے نے گوٹیں جماتے ہوئے فیصلہ سنادیا۔
‘ہاں ہم اپنے گھر پر ہی رہیں گے’
بیٹی تیزی سے اٹھی اور پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر جھول گئی۔
اور ہم سب ایک ساتھ ہنس دیے۔
ضرورت
‘ابّو میں کچھ کتابیں لے لوں؟’
میرا بیٹا میرے کمرے کی دیوار سے لگے بُک شیلف کے پاس کھڑا پوچھ رہا تھا۔ پتا نہیں میں حیران زیادہ ہوا یا خوش۔