’کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترکی تیار تھا!‘
چند سال پہلے جب استنبول جانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت اس شہرِ دلربا کی رنگینیاں عروج پر تھیں اور کوچۂ و بازار اوراقِ مصور کی مانند سجیلے سیاحوں سے بھرے ہوئے تھے لیکن آج بابا بلھے شاہ کے الفاظ میں
گلیاں ہوجان سنجیان
وچ مرزا یار پھرے
(گلیاں ویران ہوجائیں اور ان میں میرا محبوب بے خوف گھومتا پھرے) کے مصداق استنبول کے گلی کوچے سنسان ہوچکے ہیں اور ان میں کوئی محبوب گھومتا پھرتا نظر نہیں آتا۔
آج یہی صورتحال میرے پیارے شہر کراچی اور دنیا بھر کی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا نے اربوں انسانوں کو گھر میں مقید کردیا ہے۔ ہر گلی کوچہ سنسان اور ہنستے بستے انسانوں سے خالی ہے، ہر جانب موت کے سیاہ سائے منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔
چین، اٹلی، اسپین، امریکا، کوریا، ایران اور پاکستان کہیں سے بھی اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے باوجود کورونا وائرس قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ طبّی عملہ اس جنگ میں ہراول دستہ بنا اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی جان بچا رہا ہے۔ لیبارٹریوں میں سائنسداں دن رات اس وائرس کا توڑ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔ پوری دنیا میں ایک افراتفری کا عالم ہے۔
ایسے میں ہمارا دوست ترکی واحد ایسا ملک نظر آتا ہے جہاں کا منظرنامہ کسی حد تک پُرسکون سا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہاں کورونا وائرس کے تاریک سائے نہیں پھیلے لیکن اس کے باوجود کوئی افراتفری نظر نہیں آتی۔ ترکی اس مشکل وقت سے کیسے نبرد آزما ہورہا ہے، اس کی حکمتِ عملی کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات میں ہمارے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
ترکی کی نیوز ایجنسی اناطولیہ کے مطابق اگرچہ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد ترکی میں بھی موجود ہیں مگر 2 درجن سے زیادہ ممالک نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترکی کے ساتھ مشترکہ حکمتِ عملی پر کام کرنے کے لیے رابطہ کیا ہے، کیونکہ ترکی کی کامیاب حکمتِ عملی کی بدولت متاثرہ افراد کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔
اس حوالے سے 26 ممالک کے سفارت خانوں اور ان کے وزرائے صحت نے براہِ راست ترکی سے معاونت کی درخواست کی ہے۔ ان ممالک میں ایران، اٹلی اور جنوبی کوریا جیسے بُری طرح سے متاثر ہونے والے ممالک شامل ہیں۔
مشرقی پڑوسی ایران میں کورونا کے بدترین پھیلاؤ کے باوجود اگر ترکی میں کورونا تیزی سے نہیں پھیلا تو اس میں کسی خوش قسمتی یا کسی اتفاق کا دخل نہیں ہے بلکہ یہ ترک قیادت کی بصیرت ہے کہ وبا کے ابتدائی دنوں میں جب بہت سے ممالک ابھی احتیاطی اقدامات اٹھانے سے متعلق سوچ و بچار میں مصروف تھے تب ترک حکومت نے سرحدیں بند کردی تھیں۔ جب دیگر ممالک میں اکا دکا کیس ہی سامنے آرہے تھے ترکی نے انہی دنوں میں اپنی سرحدوں پر تھرمل اسکریننگ شروع کردی تھی۔
جنوری میں وزارتِ صحت نے استنبول کے ایئر پورٹ پر 3 تھرمل کیمرے بھی نصب کردیے تھے۔ یاد رہے کہ استنبول کو دنیا کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہے جہاں لاکھوں سیاح استنبول گھومنے تو آتے ہی ہیں لیکن یہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو یہاں سے اپنی اگلی منزل کے لیے فلائٹ تبدیل کرتے ہیں۔
بعدازاں احتیاطی تدابیر کو صرف اسکریننگ تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ چین سے آنے والے ہر مسافر کو قرنطینہ میں بھی رکھا جانے لگا۔ بعد میں یہ احتیاطی تدابیر دیگر ممالک سے آنے والوں کے لیے بھی بڑھا دی گئیں۔ صورتحال جیسے جیسے تشویشناک ہوئی تو کھانسی و بخار سے متاثرہ ہر مسافر کا انفرادی چیک اپ بھی کیا جاتا رہا۔
ایران کی خراب ہوتی صورتحال میں ترکی نے اپنے تمام شہریوں کو وہاں سے بلوالیا اور ایک خصوصی پرواز سے عملے کے علاوہ 142 ترک شہری واپس لائے گئے اور سب کو قرنطینہ میں رکھا گیا۔
تمام سرحدیں بند کردینے اور ملک میں آنے والے ہر مسافر کی کڑی نگرانی کے باوجود احتیاطی تدابیر کے طور پر استنبول میونسپلٹی نے میٹرو بس کے 44 اسٹیشن پر ہینڈ سینیٹائزر لگادیے۔ ہنر مند اسکولوں کو سینیٹائزر کی تیاری پر لگا دیا گیا۔ اساتذہ طلبا کو اس حوالے سے آگاہی دیتے رہے اور والدین کو بھی سختی سے ہدایت دی جاتی رہی کہ وہ بچوں کو پُرہجوم جگہوں سے دُور رکھیں۔ اگرچہ لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں کیا گیا مگر لوگوں کو بلاضرورت گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا ہے۔
اسی خبر رساں ایجنسی نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ ترکی ایسی کورونا وائرس کی ٹیسٹ کٹ تیار کرچکا ہے جس کے نتائج 90 سے 120منٹ میں آجاتے ہیں اور ان نتائج کی درستگی 99.6 فیصد ہے۔ آذربائیجان، جاپان، کرغزستان، قطر، ترکمانستان اور ویتنام سمیت 7 ممالک نے اس ٹیسٹ کٹ کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار نامی ترک شہری سے ہمارا بھائیوں جیسا رشتہ ہے۔ وہ 50 سے زائد کتب کے مصنف اور مترجم ہیں، جن میں سے 30 اردو میں ہیں۔ انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے2017ء میں اردو زبان و ادب کی خدمات کی بنا پر ’ستارہ امتیاز‘ سے نوازا گیا ہے۔ وہ اگرچہ ترک شہری ہیں مگر اردو زبان میں ان کی گراں قدر خدمات اور پاکستان سے محبت کو دیکھ کر ترکی میں لوگ انہیں پاکستان کا سفیر قرار دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی پاکستانی ہیں۔ ڈاکٹر خلیل طوقار آج کل استنبول یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ترکی تیار تھا!‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ترک حکومت ایسی کسی بھی آفت سے نمٹنے کے لیے کافی عرصے سے تیاری کررہی تھی۔ ہمیں خدشہ تھا کہ ترکی پر کوئی بائیولوجکل حملہ ہوسکتا ہے اس لیے تیاریاں اور احتیاطی تدابیر جاری تھیں۔ ہم طبّی محاذ پر بھی تیار تھے۔ ترک وزارتِ صحت کی جانب سے 2018ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ترکی میں ہر ایک لاکھ افراد کے لیے 46 انتہائی نگہداشت یونٹ کے بستر موجود ہیں جبکہ امریکا جیسی سپر پاور کے پاس ایک لاکھ افراد کے لیے 37 اور ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں ایک لاکھ افراد کے لیے 2 آئی سی یو ہیں۔