ڈنمارک میں لاک ڈاؤن اور ہمارا ڈھابہ
عجب موسمِ بہار اترا ہے کہ دھوپ تو نکل رہی ہے مگر لوگ گھروں سے نہیں نکل پارہے۔ معاشرے کا ہر ایک فرد اپنے گھر میں دبکا پڑا ہے، کاروبارِ حیات معطل ہوچکا، بسیں اور ٹرینیں چل تو رہی ہیں لیکن خالی سڑکوں اور بنا سورایوں کے گھوم رہی ہیں۔
لوگ بلاضرورت گھر سے نہیں نکل رہے، ہم لوگ اپنی زندگی کے بہت بڑے سانحے کے درمیان سے گزر رہے ہیں، اب بھی یقین نہیں آتا کہ ہم خود یہ تجربہ کر رہے ہیں۔
کورونا وائرس نے اتنی دہشت پھیلا رکھی ہے کہ لوگ کئی کئی میٹر دُور سے ہاتھ ہلا کر ملنے جلنے کا تاثر دے رہے ہیں۔ وہ جو خواہشیں حجرہ شاہ مقیم کی جٹی تھیں کہ سنجیاں ہو جان گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے (گلیاں ویران ہوجائیں اور ان میں میرا یار پھرے)، بس ویسے ہی گلیاں سنسان پڑی ہیں، بس جٹیاں خود منہ چھپائے زندگی سے بیزار ہیں اور مرزے کونوں کھدروں میں دبکے پڑے ہیں۔
پچھلے 2 ہفتے سے ڈنمارک میں عملی طور پر لاک ڈاؤن ہے اور مزید 2 ہفتوں کے لیے اس میں توسیع کردی گئی ہے۔ اب 12 اپریل تک سرکاری دفاتر، ریسٹورینٹ، شراب خانے، پارٹی ہال، مساجد، چرچ ہر وہ جگہ جہاں لوگ اکٹھے ہوسکتے ہیں وہ بند کردی گئی ہے۔
10 سے زیادہ لوگوں کے ایک جگہ جمع ہونے پر جو پابندی لگائی گئی تھی اس کو اب 2 افراد تک لائے جانے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ پچھلے ہفتے ایک حقہ کیفے میں جمع ہونے والے 23 افراد کو 1500کرون فی فرد کے حساب سے جرمانہ بھی کردیا گیا ہے۔
گروسری اور میڈیکل اسٹور طرز کی دکانوں کے علاوہ باقی ہر طرح کی دکانوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔ ان اسٹور پر بھی داخلی دروازے کے ساتھ ہینڈ سینیٹائزر اور دستانے رکھ دیے گئے ہیں۔ کیش کاونٹر کے پاس ایک گاہگ سے دوسرے گاہگ کے درمیان فاصلے کی نشاندہی کرتی ہوئی فرشی پٹیاں لگا دی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ پرچہ بھی آویزاں کردیا گیا ہے کہ فاصلے کا خیال رکھا جائے۔