اٹلی کے تجربے سے ممالک سیکھ سکتے ہیں کہ انہیں اس مرض کی روک تھام کے لیے اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں اور وبا کے پھیلنے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔
اٹلی میں پہلا کیس تو 20 فروری کو دریافت ہوا تھا مگر یہ وائرس اس سے بھی پہلے پھیلنا شروع ہوچکا تھا، بس پکڑ میں نہیں آیا تھا۔
کچھ حلقوں کے مطابق وائرس کی دریافت کے بعد بھی اٹلی کے حکام نے لاک ڈاؤن لگانے میں بہت تاخیر کی کیونکہ اسے لڑکھڑاتی معیشت میں مزید خرابی کا ڈر تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اٹلی کے تجربے دیگر ممالک کو سبق ملتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو مزید نظرانداز نہیں کرسکتے اور انہیں اٹلی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے۔
مگر ماہرین کے مطابق دنیا کو یہ بھی سیکھنا چاہیے کہ اٹلی نے کیا کچھ درست کیا۔
نئے کیسز کی تعداد میں کمی کی بڑی وجہ سخت قسم کا لاک ڈاؤن ہی ہے جس میں ہر طرح کے کاروبار کو بند کردیا گیا، غیر ضروری نقل و حمل روک دی گئی، جس سے وائرس کے پھیلائو کی شرح میں کمی آئی اور اس کا حجم سکڑنے لگا۔
ماہرین کے مطابق اٹلی کی حکومت نے شروع میں سست ردعمل کا اظہار کیا مگر پھر بہت جارحانہ قسم کی پالیسی اختیار کی اور اٹلی میں یورپی یونین کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ٹیسٹ کیے گئے۔
اٹلی کی غلطیوں اور کامیابیوں سے قطع نظر وہاں اموات کی شرح بہت زیادہ ہونا دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ یہ وائرس کتنا خطرناک ہوسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق فروری کے آخر میں دنیا اٹلی کو دیکھ کر کہہ رہی تھی کہ ایسا ممکن نہیں، یقیناً اٹلی کے طبی نظام میں کچھ خامیاں ہیں، مگر اب دنیا بھر کے ممالک کو وبائی صورتحال کا سامنا ہے اور اب وہ جان چکے ہیں کہ یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلنے کے ساتھ بہت زیادہ بیمار اور موت کا باعث بن سکتا ہے۔