ہمیں دوسری عالمی جنگ کا سامنا ہے، کیا ہم اس سے لڑنے کے لیے تیار ہیں؟
کورونا وائرس کے خلاف گزشتہ کئی دنوں سے جاری لڑائی کے دوران (مجھ سمیت) بہت سے لوگ مسلسل یہ سوچ رہے ہیں کہ حکومت واضح حکمتِ عملی کے ساتھ سامنے کیوں نہیں آرہی؟ حکومت کیوں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے کون سے اقدامات کرنے ضروری ہیں۔
یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ اب تک وزیرِاعظم نے قوم سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کے دوران جو پیغام دینے کی کوشش کی ہے اس سے خاطر خواہ وضاحت نہیں ہوپائی ہے۔
وزیراعظم نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ یہ وائرس نزلے زکام جیسا مرض ہے اور 97 فیصد مریض صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ مگر جس کسی نے بھی اعداد پر کام کیا ہے وہ آپ کو یہ ضرور بتائے گا کہ اصل نکتہ یہ نہیں کہ 97 فیصد مریض مکمل صحتیاب ہوجاتے ہیں بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ 3 فیصد صحتیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ اگر وقت پر ٹھوس اور فیصلہ کن ایکشن نہ لیا جائے تو ان 3 فیصد مریضوں کے ذریعے متاثرین کی تعداد لاکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آبادی کا 3 فیصد خود ایک بڑا بلکہ بہت ہی بڑا عدد بنتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ دوسری جنگِ عظیم میں دنیا کی 3 فیصد آبادی ہی موت کے گھاٹ اتاری گئی تھی۔ خطرے کی اس قدر سنگینی کے باوجود ہمیں یہ بتایا گیا کہ زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
اگر یہ بات درست ہوتی تو یہ سوال ضرور پیدا ہوتا کہ دنیا بھر کے ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیوں اٹھا رہے ہیں؟ کیا وہ خطرے کو سمجھنے میں ناکام رہے؟
مختلف ملکوں کی حکومتوں سے لے کر عالمی ادارہ صحت سے منسلک اعلیٰ حکام نے اپنے پیغام کو دُور دُور تک پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور یہ پیغام ہمارے وزیرِاعظم کے پیغام سے یکسر مختلف ہے۔ دیگر حکومتوں اور عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ جن افراد کو ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہے یا پھر جن کی جان کو خطرہ ہے وہ بھلے ہی بڑی عمر کے افراد ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جو افراد عمر رسیدہ نہیں یا جن میں ابتدائی علامات ظاہر نہیں ہیں وہ خود کو محفوظ سمجھنا شروع کردیں۔ ذمہ دار قیادت ممکنہ خطرات کی اہمیت کو گھٹانے کے بجائے انہیں اجاگر کرتی ہے۔
وزیرِاعظم نے ایک بار پھر اپنے تازہ خطاب میں لاک ڈاؤن کے خیال پر تنقید کی۔ جس کی وجہ شاید اپنے مؤقف کو درست ٹھہرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزیرِاعظم نے لاک ڈاون کے نفاذ پر اپنے عوام سے معافی مانگی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم نے اپنے عوام سے لاک ڈاؤن کے باعث پیدا ہونے والی دشواریوں پر معافی مانگی تھی اور اس اقدام کو ضروری قرار دیا تھا۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا طریقہ کار بہت ہی خراب تھا اور حکومت نے عوام کو صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی۔ یہاں ایسی غلطی نہیں ہونی چاہیے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اعلیٰ قیادت لاک ڈاؤن کے خلاف دلیل تو پیش کرتی ہے، مگر اس وائرس کو روکنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ان کے پاس کوئی واضح حکمتِ عملی ہے ہی نہیں۔ وزیرِاعظم نے یہ دلیل دی تھی کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ معاملہ کتنا طویل ثابت ہوگا، یہی بات ان کے پہلے خطاب کا مرکزی خیال بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے بارے میں صرف اسی وقت سوچا جاسکتا ہے جب ’حالات بہت زیادہ بگڑ جائیں‘۔
صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@
ان کا ای میل ایڈریس ہے: khurram.husain@gmail.com