دنیا

بھارت: 'مذہبی فسادات کیلئے اکسانے' کے الزام میں جامعہ ملیہ کا طالبعلم گرفتار

گرفتار فرد پی ایچ ڈی کا طالبعلم ہے اور اسے دہلی فسادات میں مذہبی رنگ دینے کے الزام میں حراست میں لیا گیا، رپورٹ

دہلی پولیس نے مختلف علاقوں میں مبینہ طور پر 'مذہبی بنیاد پر فسادات کے لیے اکسانے' کے الزام میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پی ایچ ڈی کے طالبعلم کو گرفتار کرلیا۔

بھارتی خبررساں ادارے انڈین ایکسپرس نے رپورٹ کیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پی ایچ ڈی طالب علم کو بدھ کی شب حراست میں لیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے دہلی ہائیکورٹ نے دہلی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ فسادات سے متاثر ہونے والے افراد جو اس وقت بے گھر ہوسکتے ہیں انہیں کمیونٹی مراکز یا دہلی اربن شیلٹر امپروومنٹ بورڈ کے نائٹ شیلٹرز میں رہائش فراہم کرے۔

مزید پڑھیں: بھارت: ہندو قوم پرست نے 'یہ لو آزادی' کہہ کر مظاہرین پر فائرنگ کردی

دوسری جانب ایک علیحدہ کیس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم شرجیل امام کا نام دہلی پولیس کی جانب سے تیار کی گئی چارٹ شیٹ میں سامنے آیا تھا۔

دہلی پولیس کی جانب سے یہ چارٹ شیٹ دسمبر 2019 میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں شروع ہونے والے فسادات سے متعلق تیار کی گئی تھی، جس میں طالبعلم کا نام اکسانے والے کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔

مزید برآں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور نیو فرینڈ کالونی میں تشدد کے حوالے سے دائر چارج شیٹ کے ساتھ پولیس نے شرجیل امام کے خلاف سی سی ٹی وی، کال ریکارڈ اور 100 سے زائد عینی شاہدین کے بیانات کو بھی منسلک کیا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت میں متنازع شہریت قانون کے سامنے آنے کے ساتھ ہی مظاہرے شروع ہوگئے تھے جبکہ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں بھی پرتشدد واقعات خصوصاً پولیس کی جانب سے تشدد کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے۔

بعد ازاں فروری کے مہینے میں ان مظاہروں میں شدت آئی تھی تاہم یہ احتجاج مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے تھے۔

بھارت میں فسادات

خیال رہے کہ 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم محلوں پر حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد کو اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا یا تشدد کرکے موت کی نیند سلادیا گیا تھا جس کے باعث 50 افراد ہلاک ہوئے اور ان میں بیشتر مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت مظاہرے: جامعہ ملیہ کے بعد شاہین باغ میں بھی مسلح نوجوان کی فائرنگ

ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس آیا کھڑی رہی یا ہجوم کے ساتھ رہی، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔

علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب کہا جارہا۔

کورونا وائرس: امریکا میں 2 نوزائیدہ بچے بھی چل بسے

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کیلئے بھارت کے نئے 'غیر قانونی' ڈومیسائل قانون کو مسترد کردیا

لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ’دیکھتے ہی گولی ماری جا سکتی ہے‘، فلپائنی صدر