کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن میں سیاستدان کس طرح وقت گزار رہے ہیں؟
کورونا وائرس نے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ ہونے پر مجبور کردیا ہے، لوگ خود کو بچانے کے لیے اپنے گھروں میں خود ساختہ قرنطینہ میں چلے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے ساتھ آس پاس کے دیگر لوگوں کو اس وبا سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
پاکستان کی سیاسی قیادتیں بھی عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا سے بچنے کے لیے بتائی گئی تجاویز پر عمل کر رہی ہیں، لیکن ان میں سے بہت سے عوامی نمائندے ایسے بھی ہیں جو عوام کے مصائب کم کرنے کے لیے اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یوں تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادتیں اپنے کام میں مصروف نظر آتی ہیں، اور ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں کی خبریں بھی عوام تک پہنچ جاتی ہیں لیکن کچھ ایسے بھی سیاستدان ہیں جن کی سرگرمیاں خبر نہیں بنتیں۔
کورونا وائرس کی پھیلتی وبا کے پیشِ نظر جب حکومتِ پاکستان نے اپنا فضائی آپریشن معطل کرنے کا فیصلہ کیا تو لندن میں کافی دنوں سے مقیم اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بھی وطن واپس پہنچ گئے، اور پہنچتے ہی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔
دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری بھی سرگرم نظر آئے، جن کی منظوری سے سندھ کی حکومت نے کورونا کی مہلک انگیزی کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سب سے پہلے نہ صرف تعلیمی دارے بند کیے بلکہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی سب سے پہلےکیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کورونا وائرس کے پاکستان میں بڑھتے اثرات کو روکنے کے لیے سیاسی جماعتوں سے روابط کا آغاز کیا اور کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی۔ اسی طرح اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی متحرک نظر آتے ہیں۔
تاہم عوام کے منتخب نمائندے یا سیاسی جماعتوں کے مرکزی عہدیدار ان دنوں کس طرح اپنی زندگی گزار رہے ہیں، اس حوالے سے تفصیلات کافی دلچسپ ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں، ارکانِ اسمبلی، سینیٹرز سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ وہ عوام سے دُور رہنے کے باوجود عوام اور اپنی قیادت سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ صحت مند زندگی میں اتنا وقت اپنے گھر میں گزارنے کا یہ پہلا تجربہ اب کافی بوجھ بنتا جارہا ہے، بوریت کو مشغولیت میں تبدیل کرنے کے روز روز نئے طریقے ڈھونڈے جاتے ہیں، گھر میں نہ ہوں تو شکایت اور ہیں تو بھی شکایت جیسے شکوے سامنے آرہے ہیں۔
فرحت اللہ بابر
ہمارا سب سے پہلے فرحت اللہ بابر سے رابطہ ہوا۔ بابر صاحب اس وقت پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کے سیکرٹری جنرل ہیں، اور اپنے اصولی مؤقف کے باعث انہیں تمام سیاسی جماعتوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ان دنوں اپنا سارا وقت اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی گزار رہے ہیں۔ اس دوران چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی رابطہ رہتا ہے اور پارٹی کے اہم معاملات پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سارا وقت ٹی وی، موبائل یا کمپیوٹر کے ساتھ گزرتا ہے، کیونکہ ان دنوں فون پر پیغامات معمول سے زیادہ موصول ہوتے ہیں اس لیے کوشش کرتا ہوں کہ ان کا جواب بھی دیا جائے۔ پھر ہر دوسرے تیسرے روز بازار سے سودا سلف لینے چلا جاتا ہوں۔ لیکن سچ پوچھیں تو ابک مخصوص معمول کے ساتھ زندگی گزارنا بھی بڑا کٹھن کام ہے‘۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ صورتحال کافی خراب ہے، اس عمر میں اگر بندہ احتیاطی تدابیر نہ اختیار کرے تو اس طرح وہ نہ صرف خود کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
سلیم مانڈوی والا (ڈپٹی چیئرمین سینیٹ)
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا سے جب پوچھا گیا کہ آج کل ان کی مصروفیات کیا ہیں تو انہوں نے بتایا کہ، پہلے تو ہم حکومت کا انتظار کرتے رہے کہ وہ کیا کرتی ہے، لیکن اس کی طرف سے کوئی ریسپانس نہیں آیا تو ہم اپنے کام سے لگ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت تمام صاحبِ حیثیت لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق کیا کرسکتے ہیں؟ ہمارے خاندان اور دوستوں نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کورونا وائرس کے تدارک کے لیے خرچ کرنے کا تہیہ کیا ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'ہمارا وقت گھر پر ہی گزرتا ہے لیکن ان دنوں اسلام آباد اور لاہور بھی جانا پڑا کیونکہ ہم اور ہمارے دوستوں نے کورونا وائرس کی 10 ہزار پی سی آر ٹیسٹ کٹس صوبوں کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جن میں سے 2 ہزار کٹس ہم سندھ حکومت کو دے چکے ہیں۔ جیسے جیسے 8 ہزار باقی کٹس آتی جائیں گی، ویسے ویسے ہم پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو فراہم کرتے جائیں گے'۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے اہلِ خانہ 2 کروڑ روپے کے ماسک بھی لوگوں میں تقسیم کریں گے جس کا آرڈر دیا جاچکا ہے جبکہ کراچی میں وہ اپنی حیثیت کے مطابق راشن تقسیم کررہے ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ ’میں نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھی کہا کہ آپ لوگ، لوگوں سے مانگنے کے بجائے خود اپنی طرف سے کیا دے سکتے ہیں اس بارے میں سوچیں‘۔
وہ کہتے ہیں کہ 'پوری کوشش کرتے ہیں کہ گھر سے باہر نہ جائیں، لیکن مجبوری میں باہر نکلنا پڑجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احیتاطاً اپنے ڈرائیور کا کورونا ٹیسٹ بھی کروالیا ہے تاکہ طویل سفروں میں کوئی پریشانی نہ ہو'۔
لال چند مالہی (پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق)
تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری لال چند مالہی اپنی مصروفیات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’وہ اس وقت اپنے حلقہ انتخاب اور آبائی علاقے عمر کوٹ میں موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اس وقت ایک ہی کام ہے کہ لوگوں کو کس طرح ریلیف دیا جائے اور انہیں ایک جگہ اجتماع سے روکا جائے۔ ہم نے کچھ دن پہلے دسہرے کے تہوار کی رسومات کو بھی مختصر کردیا تھا کیونکہ اس تہوار کی رسومات میں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اس بار لوگوں کو شرکت سے پرہیز کرنے کی درخواست کی گئی تھی'۔
وہ اس مذہبی تہوار کے بارے میں بتاتے ہیں کہ، 'دسہڑے کا تہوار 10 دنوں تک جاری رہتا ہے، پہلے دن مندر میں اناج اگانے کے لیے علامتی طور پر گندم کے پودے رکھے جاتے ہیں، جبکہ اگلے 9 دن نوراتری منائی جاتی ہے، دسہرے کے دن اگنی کی رسم پر سیکڑوں لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں لیکن اس بار انہیں اکٹھا ہونے سے روک دیا گیا۔
لال مالہی کہتے ہیں کہ 'کوشش ہوتی ہے کہ دن کا زیادہ سے زیادہ وقت گھر پر ہی گزرے، جب اپنے حلقے میں جاتے ہیں تو لوگ اکٹھے ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ گھر میں کام کاج کے بارے میں جب سوال کیا تو ہنس پڑے اور ہمیں بتایا کہ گھر کا کام نہ پہلے کیا اور نہ اب ہم سے ہوگا‘۔
سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر (ترجمان بلاول بھٹو زرداری)
سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ ’ان دنوں تو سارا وقت فیملی کے ساتھ گزرتا ہے، فرصت زیادہ ہے اس لیے کچن میں چلا جاتا ہوں اور کھانا پکالیتا ہوں۔ سیاسی میل جول بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ اپنے حلقہ انتخاب میں جانا خطرات سے خالی نہیں کیونکہ اگر آپ جائیں تو لوگ مجمع لگا دیتے ہیں ایسے میں احتیاط برتنے میں بہت ہی مشکل پیش آتی ہے، اس لیے فون پر رابطہ رہتا ہے۔ موجودہ حالات میں کتب بینی کے لیے بھی وقت مل گیا ہے، اس لیے موقع کو غنیمت جان کر مطالعہ شروع کردیا ہے'۔
مولانا عبدالاکبر چترالی (رکن قومی اسمبلی متحدہ مجلسِ عمل)
مولانا عبدالاکبر چترالی اس وقت اپنے حلقہ انتخاب چترال میں ہیں، اور ان کا لوگوں سے میل جول برقرار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے، تب سے وہ اپنے علاقے میں ہیں۔ وہ روزانہ بازار جاتے ہیں اور وہاں ضروری اشیا کی کھلی دکانوں پر موجود لوگوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں‘۔