پاکستان

مارچ میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 10.2 فیصد ہوگئی

مہنگائی میں کمی کی وجہ اشیائے خورونوش کی فراہمی بہتر ہونا اور توانائی کی چیزوں کی قیمت کم ہونا ہے، رپورٹ

پاکستان ادارہ شماریات (بی پی ایس) نے کہا ہے کہ مسلسل دوسرے ماہ اہم اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح کم ہو کر 10.2 فیصد ہوگئی ہے جو اس سے پہلے والے مہینے میں 12.4 فیصد تھی۔

گزشتہ برس جولائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے پیمائش کی جانے والی مہنگائی میں مسلسل دوسرے ماہ کمی کا سلسلہ دیکھا گیا جس کی وجہ اشیائے خورونوش کی فراہمی بہتر ہونا اور توانائی کی اشیا کی قیمت کم ہونا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مارکیٹ سے ماہانہ مہنگائی کا اندازہ لگانے کے لیے اکٹھا کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سی مارکیٹس مارچ کے پہلے حصے میں فعال تھیں لیکن یہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپریل میں کرنا مشکل ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں 15 روپے کی کمی

پاکستان بھر میں ایک محدود وقت تک کے لیے ان مارکیٹس میں سے زیادہ تر ان دکانوں کو کھولے جانے کی اجازت دی گئی ہے جو باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیا، پھل اور سبزیاں فروخت کرتی ہیں۔

دیہی علاقوں میں کھانا بنانے کے لیے ایل پی جی سلینڈرز کے استعمال کے باوجود سبزیوں، پھلوں اور دالوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی اور گزشتہ 7 ماہ کے دوران 10.2 فیصد مہنگائی کی کم ترین سطح ہے۔

محمکمہ شماریات کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ پی بی ایس اشیائے خورو و نوش اور باورچی خانے میں استعمال ہونے والی اشیا کے حوالے سے مارکیٹ سے ہر ماہ کی 15 تاریخ تک اعداد و شمار اکٹھا کر لیتی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: ضرورت سے زیادہ آٹا خریدنے سے قلت، قیمتوں میں اضافہ

تاہم بجلی، گیس، ایل پی جی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں حکومت کی مقرر کردہ ہوتی ہیں جو با آسانی دستیاب ہوتی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہمیں اپریل میں بھی مہنگائی کا انداہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی‘ اور اعداد و شمار 11 اپریل سے 15 اپریل کے درمیان اکٹھا کرلیے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ مہنگائی میں افراط زر میں اضافے کی وجہ بننے والی اہم اشیا مثلاً اشیائے خور و نوش مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور خوراک کے علاوہ زیادہ تر اشیا کی قیمت مستقل ہے۔

تاہم سالانہ بنیادوں پر شہری علاقوں میں مارچ میں اشیائے خورونوش کی مہنگائی میں 13 فیصد جبکہ ماہانہ بنیاد پر 0.6 فیصد اضافہ ہوا اسی طرح دیہی علاقوں میں اس شرح میں سالانہ حساب سے 15.5 فیصد اضافہ اور ماہانہ اعتبار سے 0.3 فیصد کمی ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کا شرح سود میں مزید ڈیڑھ فیصد کمی کا فیصلہ

شہری علاقوں میں جن اشیا کی قیمت میں اضافہ دیکھا گیا ان میں پیاز (35.07 فیصد)، آلو(10.93 فیصد)، تازہ پھل (8.53 فیصد)، چکن(3.25 فیصد)، خشک دودھ(1.86 فیصد)، سرسوں کا تیل(1.7 فیصد)، انڈے (1.6 فیصد)، مرچ مصالحہ جات (1.58 فیصد)، مکھن(1.24 فیصد)، پھلیاں (1.18 فیصد)، گڑ(1.12 فیصد)، تازہ دودھ (0.96 فیصد) اور گوشت (0.84 فیصد) شامل ہے۔

دوسری جانب شہری علاقوں میں جن اشیا کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ان میں ٹماٹر(23.29 فیصد)، مچھلی(9.25 فیصد)، گندم (8.43 فیصد)، تازہ سبزیاں (7.78 فیصد)، چنے کی دال (5.13 فیصد)، دال مسور(3.39 فیصد)، گندم کا آٹا(3.17 فیصد)، دال ماش(2.33 فیصد) اور چینی کی قیمت میں 0.54 فیصد کمی شامل ہے۔

اسی طرح دیہی علاقوں میں جن اشیا کی قیمت میں اضافہ ہوا ان میں پیاز (4.95 فیصد)، تازہ پھل (8.04 فیصد)، آلو(6.82 فیصد)، پھلیاں(3.77 فیصد) اور ویجیٹیبل گھی (1.05 فیصد) شامل ہے۔

مزید پڑھیں: فروری میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 12.4 فیصد ہوگئی

مزید برآں دیہی علاقوں میں جن اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ان میں ٹماٹر (36.43 فیصد)، گندم (7.39 فیصد)، تازہ سبزیاں(5.64 فیصد)، دال چنا (5.07 فیصد)، چکن (4.85 فیصد)، دال مسور(3.45 فیصد)، انڈے (3.17 فیصد)، ثابت چنے (2.58 فیصد)، گندم کا آٹا(2.52 فیصد)، دال ماش(2.05 فیصد) اور گڑ کی قیمت میں 1.02 فیصد کمی شامل ہے۔

احتیاط نہ کی گئی تو کورونا متاثرین کی تعداد 50 ہزار تک ہوسکتی ہے، وزیر اعظم

مقبوضہ کشمیر میں روزگار کے متنازع قانون کو عمر عبداللہ نے توہین قرار دے دیا

امریکا میں کورونا کیسز کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ کیوں ہورہا ہے؟