محققین کا کہنا تھا کہ اگر کم از کم 50 جینومز کے سیکونس کے لیے مالی معاونت دستیاب رہی تو اس عمل سے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے علاج، تشخیص اور روک تھام کے ٹولز میں مدد مل سکے گی۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد اقبال چوہدری نے بتایا 'پاکستان میں پہلی بار اس نئے سارس کوو 2 وائرس کا جینوم تیار کیا گیا ہے'۔
اس سینٹر کے 2 شعبے ہیں جن میں سے ایک جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ اور دوسرا ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسین اینڈ ڈرگ ریسرچ ہے۔
اس وائرس کے تجزیے کے حوالے سے تحقیقی ٹیم کے قائد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ اس کا نمونہ ایک ایسے مریض سے حاصل کیا گیا جو ایران کا سفر کرکے آیا تھا اور اسے علاج کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں داخل کیا گیا، جبکہ نمونے کا تجزیہ کراچی یونیورسٹی کے مرکز میں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ 'تجزیے کا بڑا ٹاسک انتہائی احتیاط سے انسانی جینوم کو وائرس کے جینوم سے الگ کرنا تھا، اس کام کو مکمل کرنے کے لیے ٹیم ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں مکمل کیا اور اس دریافت کا موازنہ بین الاقوامی ڈیٹا سے کیا گیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی ٹیم نے جب اس کا موازنہ چین کے شہر ووہان میں تیار ہونے والے سیکونس سے کیا تو جینوم کے مختلف حصوں میں 9 میوٹیشن (ڈی این اے میں تبدیلیاں) نظر آئیں۔
انہوں نے وضاحت کی 'مگر اس کے باوجود یہ وائرس ووہان سے پھیلنے والے وائرس سے ہی جڑتا ہے، پروٹین اور انزائمے میں کوئی تبدیلیاں نظر نہیں آئیں، جو وائرس کو انسانی جسم کے اندر سانس کی نالی میں جگہ بنانے میں مدد دیتے ہیں'۔
پروفیسر اقبال چوہدری کے مطابق کورونا وائرس میں تبدیلیاں بہت سست روی سے ہورہی ہیں اور ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان تبدیلیوں سے مرض کی شدت پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا 'کسی وبا میں، اس طرح کی تبدیلیوں کے اندر، شرح اور فطرت کو مانیٹر کرنا بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے مستقبل کی تھراپیز اور ویکسینیشنز میں مدد ملتی ہے، مثال کے طور پر چکن گنیا وائرس میں ایک واحد تبدیلی سے یہ وائرس زیادہ آسانی سے پھیلنے لگا تھا'۔
پروفیسر اقبال چوہدری نے بتایا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں اس نئے نوول کورونا وائرس کے سیکڑوں جینومز تیار ہوچکے ہیں جبکہ برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی برطانوی آبادی میں اس کا بڑے پیمانے پر ڈیٹا تیار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ملک کے مخصوص ماحولیاتی صورتحال کے پیش نظر ہم زور دیتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں مریضوں کے مزید جینومز سیکونس تیار کیے جانے چاہیئں تاکہ ملک میں وائرس کے پھیلنے اور اقسام کو سمجھنے میں مدد مل سکے، اس سے ہمارے نوجوان سائنسدانوں کی گنجائش بڑھانے میں مدد ملے گی جبکہ ویکسینیشن اور علاج کی تیاری کا عمل بھی آسان ہوسکے گا'۔
ڈاؤ یونیورسٹی
دوسری جانب ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یہ نیا نوول کورونا وائرس مقامی صورتحال کے مطابق اپنے جینیاتی نظام میں تبدیلیاں لارہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی سربراہی میں ایک ٹیم نے کورونا وائرس کے جینوم سیکونس کا تجزیہ کیا جو ایک مقامی مریض کے نمونوں سے تیار کیا گیا تھا۔