جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے، نئے قیدیوں کی اسکریننگ کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے صوبائی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے تمام نئے قیدیوں کی اسکرینگ کرنا لازمی قرار دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان مندوخیل، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل بینچ نے ہائی کورٹس سے قیدیوں کی ضمانت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
سماعت کے ابتدا میں چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے پہلے ہائی کورٹس کے دائرہ اختیار کا جائزہ لینا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کا قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں، سندھ ہائی کورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کر حکم جاری کرے، کس قانون کے تحت ملزمان اور مجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی ملک میں مشکل کام ہے، جرائم پیشہ افراد کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، پولیس کورونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسے سڑکوں پر نکلنے دیں؟
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کی ضمانت کے خلاف زیر سماعت پٹیشن میں وکیل کی فریق بننے کی درخواست
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئی ہیں، کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ ڈاکووں کے کنٹرول میں ہے، ڈیفنس میں رات کو تین بجے ڈاکو کورونا مریض کے نام پر آتے ہیں اور کورونا مریض کی چیکنگ کے نام پر گھروں کا صفایا کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب سے ہائی کورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے، کرپشن کرنے والوں کا دھندا لاک ڈاؤن سے بند ہوگیا، سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرپشن کرنے والوں کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے، کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملے گا تو وہ دیگر جرائم ہی کرے گا۔
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے دلیل پیش کی کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے قانون کو دیکھنا ہے، کسی الزام کی پرواہ نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت اس مقدمے میں یونیفارم گائیڈ لائن دے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے تمام فیصلے معطل کردیے
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لاہور میں کیمپ جیل 6 کو قرنطینہ بنا دیا گیا ہے، جو مشتبہ ہیں انہیں قرنطینہ میں رکھا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی ہدایت پر کئی ملزمان کو چھوڑا گیا، کس کس کو چھوڑا گیا معلوم نہیں، ایسے لوگوں کو رہا کرنا ہے تو جیلوں کا سسٹم بند کر دیں۔
جس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن نے کہا کہ جیلوں میں ایسے بھی قیدی ہیں جو اپنی ضمانت نہیں کروا سکتے، قیدیوں کی نظر اللہ کے بعد صرف عدالت پر ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کا شور اٹھا تو کیا قیدیوں کو چھوڑ دیا گیا؟
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ عدالت لوگوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام نہیں ہوگی، جو بھی ہوگا لیگل فریم ورک کے اندر ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے 4 سطروں کی مبہم پریس ریلیز جاری کی، پریس ریلیز سے کتنے قیدیوں کو رہائی ملی؟
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات سے 829 قیدیوں میں سے 519 رہا ہوچکے ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ رہا ہونے والے 519 قیدی کس قسم کے جرائم میں ملوث تھے اور رہا کیے جانے والے افراد کی تفصیلات طلب کرلی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے انتظامی حکم پر قیدیوں کی رہائی کی سمری تیار ہوئی۔
جسٹس قاضی امین نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے پاس ایسے انتظامی احکامات دینے کا اختیار کہاں سے آگیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نہ روکتی تو پنجاب سے 10 ہزار جرائم پیشہ لوگ رہا ہو جاتے، جیلوں میں تو باہر سے کوئی جا ہی نہیں سکتا۔
خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کے پی حکومت نے کوئی قیدی رہا نہیں کیا،
جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ کیا ہائی کورٹس نے ہر مقدمےکا الگ جائزہ لےکر رہائی کا حکم دیا؟ کیا اجتماعی طور پر ضمانت کا حکم دیا جا سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کی رہائی، ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل
سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کی سرزنش کی اور استفسار کیا کہ آپ نے ہائی کورٹ کی کیا معاونت کی؟ لیکن ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالتی سوالات کا جواب نہ دے سکے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے آپ ہائی کورٹ میں بھی ڈمی بن کر کھڑے رہے تھے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں 5 کورونا کیس نکلنے پر ڈیفنس میں بنگلہ سیل کیا گیا، جیلوں کو خالی کرکے لوگوں کے گھروں کو سیل کیا جا رہا ہے، کیا سندھ میں کوئی دماغ استعمال بھی کرتا ہے یا نہیں؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کورونا کا مریض شریف آدمی بھی ہو تو پولیس کے ذریعے پکڑوایا جاتا ہے، شریف آدمی کو پکڑوا رہے اور جرائم پیشہ افراد کو چھوڑا جا رہا ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے دریافت کیا کہ سندھ کی جیلوں میں کورونا وائرس کے کتنے مریض سامنے آئے؟
جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے آگاہ کیا کہ صرف ان قیدیوں کو رہا کیا گیا جن کی سزائیں 3 سال سے کم تھیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ میں بھی قیدیوں کو رہا کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ برطانیہ میں قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی نے رہائی نہیں دی ہوگی۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 401 کے تحت نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جو منظوری کے لیے سندھ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عملی طور پر وزیراعلیٰ اور سندھ کابینہ میں کوئی فرق نہیں، جرائم پیشہ لوگوں کو چھوڑنا بڑا خطرناک ہوسکتا ہے، یہ رہا ہونے والے لوگ دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔
جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے پر اپنی گائیڈ لائن دے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قیدیوں کی رہائی کی فہرستیں کس نے بنائی، سب نے اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا ہوگا، یہ انتخاب کیسے ہوا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 26 مارچ کو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا اسی دم فہرست بھی بن گئی لگتا ہے یہ فہرست پہلے ہی بنا لی گئی تھیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے ملزمان بھی معمولی جرائم میں میں آتے ہیں۔
اس پر شیخ ضمیر نے کہا کہ قیدیوں کی بھلائی چاہتا ہوں لیکن عدالتی احکامات کی حمایت نہیں کرتا، معاشرے کے خلاف جرائم میں تفریق کرنا پڑے گی، ایک شخص نے بھی آرٹیکل 9 کے تحت رہائی کے لیے عدالت سے رجوع نہیں کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے 224 قیدی رہا کیے گئے۔
عدالت نے پوچھا کہ بتایا جائے کہ ہسپتال کورونا سے نمٹنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں ساتھ ہی سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات اور بستروں کی دستیابی سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرلی۔
سپریم کورٹ نے جیلوں میں جانے والے تمام نئے قیدیوں کی اسکریننگ کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ مکمل اسکریننگ کے بعد ہی قیدیوں کو جیل میں داخلے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے مزید احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی قیدی میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو اسے قرنطینہ کیا جائے۔
عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے جاچکے ہیں بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کی جیلوں میں بھی قرنطینہ مراکز قائم کیے جائیں۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کی رپورٹ، ڈاکٹرز اور طبی عملے کو دی گئی تربیت، حفاظتی کٹس اور دستیاب وینٹیلیٹرز کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ رہا کیے گئے قیدی چھوٹے جرائم میں ملوث تھے، جس پر جسٹس قاضی امین نے کہا کہ چھوٹے جرائم سے آپ کی کیا مراد ہے؟ فوجداری قانون میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: اسلام آباد ہائی کورٹ کا 408 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کا حکم
جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ یہ قیدی آوارہ گردی جیسے جرائم میں ملوث تھے، ان کو شخصی ضمانت پر بھی رہا کیا جا سکتا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس کے کہنے پر اور کس قانون کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا؟ جس پر ایڈووکیٹ اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے تحت ان قیدیوں کو رہا کیا گیا، قیدیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو درخواست دی تھی جس کے بعد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ سیکشن 168 کب اور کہاں اپلائی ہوتا ہے؟ جس کا ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جواب نہ دے سکے۔
جس پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل ہیں آپ کو قانون کا پتہ ہونا چاہیے تھا، ایک وکیل کی طرح عدالت میں پیش ہوں ڈمی کی طرح کھڑے نہ ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سر میں قانون کو دیکھ لیتا ہوں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ اب فیصلہ ہو چکا ہے اب آپ کیا دیکھیں گے۔
عدالت نے جیلوں میں گنجائش اور موجود قیدیوں کی تفصیلات بھی طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آگاہ کیا جائے جیلوں میں کتنے ملزمان ہیں اور کتنے مجرمان ہیں۔
علاوہ ازیں خواتین اور 60 سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کی قانونی حیثیت پر آئندہ سماعت پر بحث ہوگی۔
عدالت نے ہدایت کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کورونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سےجیلوں میں ڈاکٹرز کی خالی آسامیوں پر بھی جواب طلب کرتے ہوئے 6 اپریل تک تفصیلی جوابات جمع کروانے کا حکم دے دیا اور سماعت 6 اپریل تک ملتوی کردی۔
قیدیوں کی رہائی کا معاملہ
خیال رہے کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے باعث اڈیالہ جیل میں موجود معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی جیل کے قیدیوں میں وائرس پھیل گیا تو بہت مشکلات ہو جائیں گی، ابھی تک صرف چین ہی اس وائرس کا پھیلاؤ روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور چین میں بھی 2 جیلوں میں وائرس پھیلنے کے بعد معاملات خراب ہوئے تھے‘۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ ایمرجنسی نوعیت کے حالات ہیں، تمام اقدامات کرنا ہوں گے، ہماری قوم گھبرانے والی نہیں لیکن اقدامات تو کرنے ہی ہوں گے‘۔
بعدازاں 24 مارچ کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر 408 قیدیوں کی ضمانت پر مشروط رہائی کا حکم دیا تھا۔
اس موقع پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ ’یہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور ہم صرف ان ملزمان کے حوالے سے فیصلہ کر رہے ہیں جو سزا کے بغیر قید ہیں‘۔
مزید پڑھیں: پاکستان میں 2071 افراد کورونا وائرس سے متاثر، اموات 27 تک پہنچ گئیں
چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ چیف کمشنر، آئی جی پولیس اور ڈی جی اے این ایف مجاز افسر مقرر کریں اور تمام مجاز افسران پر مشتمل کمیٹی کے مطمئن ہونے پر قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جس ملزم کے بارے میں خطرہ ہے کہ وہ باہر نکل کر معاشرے کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، اسے ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ احکامات کے بعد سید نایاب حسن گردیزی نے راجہ محمد ندیم کی جانب سے سپریم کورٹ میں 6 صفحات پر مشتمل پٹیشن دائر کی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا اسلام آباد ہائیکوٹ (آئی ایچ سی) کے دائرہ اختیار میں ازخود نوٹس شامل ہے؟
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 20 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا حکم اختیارات کے منافی ہے کیونکہ یہ خالصتاً ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے تناظر میں زیر سماعت قیدیوں کے معاملے پر نظر ثانی کرے۔
اپیل میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 20 مارچ والے حکم سے غلطیاں پیدا ہوئیں کہ وہ قانون، آئین اور پبلک پالیسی کے خلاف ہے۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس ازخود نوٹس کے اختیارات سے متعلق پٹیشن پر سماعت کرنے کے لیے 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا کہ جس کے تحت ہائی کورٹ نے 20 مارچ کو زیر سماعت قیدیوں (یو ٹی پی) کو ضمانت دے دی تھی۔
جس کے بعد گزشتہ سماعت میں عدالت نے تمام ہائی کورٹس اور صوبائی حکومتوں، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کی انتظامیہ سمیت متعلقہ حکام کو یکم اپریل تک نوول کورونا وائرس کے باعث زیر سماعت قیدیوں کی جیلوں سے رہائی یا اس سلسلے میں کوئی بھی حکم دینے سے روک دیا تھا۔