صحت

سو سال پرانی ویکسین کورونا وائرس کے خلاف ہتھیار؟

ایک صدی پرانی ویکسین کیا کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کرسکے گی؟ یہ فیصلہ بہت جلد ہوگا۔

ایک صدی پرانی ویکسین کے بارے میں سوچا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا میں طبی ورکرز پر تپ دق (ٹی بی) کی روک تھام کے لیے استعمال کی جانے والی ایک ویکسین کو استعمال کرایا جارہا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اس سے انہیں کورونا وائرس سے تحفظ ملتا ہے یا نہیں۔

بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد جیسے مثانے کے کینسر کی ابتدا میں عام امیون تھراپی کے طور پر بھی اسے آزمایا جارہا ہے۔

سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ پیدائش کے بعد بچوں کو اس ویکسین کا استعمال کرانے سے ان کے جسم کو انفیکشنز کے خلاف لڑنے کے لیے تربیت ملتی ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کی بیماری کووڈ 19 کے خلاف مخصوص ویکسین کی تیاری میں کم از کم ایک سال کا وقت درکار ہے اور عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کیا بی سی جی ویکسینشن کورونا وائرس سے متاثرہ فرد میں اس کی شدت کو کم کرسکتی ہے یا نہیں۔

اس مقصد کے لیے میلبورن کے مردوچ چلڈرنز ریسرچ انسٹیٹوٹ کے سائنسدانوں نے اس کی آزمائش شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے قائد نیجل کرٹس نے بتایا ' اس ویکسین سے مدافعتی نظام کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے جس سے مختلف انفیکشن کے خلاف بہتر دفاع میں مدد مل سکتی ہے'۔

یہ تحقیق 6 ماہ تک جاری رہے گی اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ ویکسین ٹی بی کے خلاف تیار کی گئی تھی مگر اب بھی اسے دنیا بھر میں سالانہ 13 کروڑ بچوں کو دی جاتی ہے، جس سے انسانی مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے، اور اسے جراثٰموں کے خلاف پوری شدت سے لڑنے کی تربیت ملتی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ اس ویکسین کے استعمال سے کووڈ 19 کی علامات کی شدت اور پھیلائو میں کمی نظر آئے گی، اس مقصد کے لیے 4 ہزار ورکرز کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور تیزی سے عمل مکمل کرکے اس کے استعمال کی منظوری وفاقی ہیلتھ انتظامیہ سے حاصل کی جائے گی۔

آسٹریلیا کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تحقیق نیدرلینڈز میں بھی ہورہی ہے اور نیجل کرٹس کا کہنا ہے کہ وہ دیگر آسٹریلین شہروں کے ساتھ امریکی شہر بوسٹن میں بھی ٹرائل پر بات چیت کررہے ہیں۔

یہ بہت سستی ویکسین ہے جو پاکستان میں بھی نومولود بچوں کو عام استعمال کرائی جاتی ہے اور سائنسدانوں کو توقع ہے کہ آزمائش میں کامیابی کی صورت میں یہ کورونا وائرس کے خطرے کا سب سے زیادہ سامنا کرنے والے ہیلتھ ورکرز کو تحفظ مل سکے گا۔

اس تحقیق میں شامل رضاکاروں کے خون کے نمونے ٹرائل کے آغاز اور اختتام پر جمع کرکے تعین کیا جائے گا کہ کون کورونا وائرس کا شکار ہے، جبکہ 3 ماہ تک ٹرائل کے نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔

محققین کا کہنا تھا کہ ہم اس سوچ کے ساتھ یہ کام نہیں کررہے کہ یہ طریقہ کار کام نہیں کرے گا، یقیناً ہم اس کے کارآمد ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتے، مگر یہ جاننے کا واحد طریقہ اس کا ٹرائل ہی ہے۔

خیال رہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس کے نتیجے میں 8 لاکھ 3 ہزار سے زائد افراد متاثر جبکہ 39 ہزار ہلاک اور ایک لاکھ 62 ہزار صحت یاب ہوچکے ہیں۔

کیا یہ تجرباتی دوا کووڈ 19 کے علاج کے لیے واقعی موثر ہے؟

نئے کورونا وائرس کی وبا کا باعث بننے والے جاندار کی پہچان ہوگئی؟

لوگوں کا بلڈ گروپ کووڈ 19 کے خطرے پر اثرانداز ہوسکتا ہے، تحقیق