کورونا وائرس: خلیجی ممالک میں پاکستانیوں سمیت دیگر غیر ملکی ورکرز مشکلات کا شکار
دوحہ: خلیجی ممالک میں موجود لاکھوں غیر ملکی ورکرز کو ان ممالک میں لاک ڈاؤن، آجروں کی جانب سے تنخواہیں روکنے یا نوکری سے نکالے جانے اور کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں سخت اقدامات کے نتیجے میں قید اور ملک بدری کے باعث غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والے فرانسیسی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق قطر میں قرنطینہ میں موجود ایک پاکستانی انجینئر کا کہنا تھا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ اشیائے خورو نوش کا ہے، حکومت کچھ روز کے وقفے سے کھانا فراہم کرتی ہے لیکن وہ بہت کم ہوتا ہے‘۔
خیال رہے کہ صنعتی ضلع میں کورونا وائرس کا ایک ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد سے ہزاروں ورکرز کو دوحہ کے انڈسٹریل ایریا میں سختی سے محدود کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت میں لاک ڈاؤن: روزگار کے خاتمے، بھوک کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنطیموں ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) اور ایمنسٹی نے خبردار کیا تھا کہ تنگ رہائشی جگہوں اور ناکافی صفائی کی وجہ سے خلیج بھر میں غیر ملکی ورکرز خطرے میں ہیں جو شاید صحت کی سہولیات تک رسائی نہ حاصل کرسکیں۔
اس کے علاوہ انہیں تنخواہوں کی عدام ادائیگی، زبردستی نوکری سے فارغ اور ملک بدری جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے ان پر انحصار کرنے والے خاندانوں کے لیے صورتحال بدتر ہوسکتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ خلیج کی محقق حبا ضیا الدین کا کہنا تھا کہ ’خلیجی ممالک میں غیر ملکی ورکرز کو مزدوروں کے حوالے سے موجود نظام کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے جو آجروں کو غیر ملکی ورکرز کے حوالے سے بے پناہ اختیار دیتا ہے جس کے نتیجے میں ان کا استحصال اور بدسلوکی ہوتی ہے‘۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا تیل کی برآمد روزانہ ایک کروڑ بیرل سے بڑھانے کا منصوبہ
خیال رہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک میں زیادہ تر غیر ملکی ورکرز کا تعلق بنگلہ دیش، بھارت، نیپال اور پاکستان سے ہے جو دنیا بھر میں غیر ملکی ورکرز کا 10 فیصد ہے۔
اس سلسلے میں متعدد ورکرز جنہوں نے اے ایف پی سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ انہیں صحت اور نوکری کے حوالے سے خدشات ہیں۔
سعودی عرب جہاں ایک کروڑ غیر ملکی ورکرز ہیں وہاں موجود کچھ مزدوروں کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے اجر کام پر بلا رہے ہیں جبکہ سعودی شہریوں کو تنخواہ کے ساتھ قرنطینہ کی چھٹیاں دے دی گئی ہیں۔
ایک مزدور نے بتایا کہ انہیں کہا گیا کہ اگر ان کی طبیعت خراب ہو تو وہ تنخواہ کے بغیر چھٹی حاصل کرسکتے ہیں لیکن انہوں نے کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں؛ کورونا وائرس سے سعودی عرب میں پہلی موت کی تصدیق
ریاض میں موجود ایک غیر ملکی سفارتکار نے بتایا کہ ’نجی شعبے میں کام کرنے والے بہت سے ورکرز کئی شعبوں کی بندش سے مشکلات کا شکار ہیں کیوں کہ زیادہ تر مالکان ورکرز کو تنخواہوں کے بغیر گھر سے بیٹھ کر کام کرنے کا کہہ رہے ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کی جانب سے نجی شعبے کو معاوضے کی ادائیگی کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے کیوں کہ مالکان ورکرز کی پرواہ کیے بغیر معاوضے کو اپنا نقصان پورا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں‘۔
تاہم بہت سے ورکرز نکالے جانے کے خوف سے اس بارے میں بات کرنے سے بھی گریزاں ہیں جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان کہ اپنے ملکوں میں صحت کی صورتحال زیادہ خراب ہے۔