قرنطینہ کہانی: تفتان سے نکلنے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوا (دوسرا حصہ)
پہلا حصہ یہاں پڑھیے
10 مارچ
پاکستان کی سرحد میں قدم رکھتے وقت میں کسی خاص خوش فہمی کا شکار نہیں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ پاکستان آنے والے ہر مسافر کو کیمپ میں ٹھہرایا جائے گا۔ پاکستان ہاؤس کی دائیں جانب سفید ٹینٹوں کی بستی دیکھی تو چشم تصور نے آئندہ ایّام کی مکمل تصویر کھینچ دی۔
ایف سی کے جوان نے سلام کرتے ہوئے ماسک دیا اور کہا کہ ماسک بدل لیں۔ حالانکہ میں نے صرف چند منٹ پہلے ہی نیا ماسک پہنا تھا پھر بھی جوان کی تسلی اور حکم کی تعمیل میں شکریہ ادا کر تے ہوئے نیا ماسک پہن لیا۔
جوان نے دائیں جانب واقع ایک عمارت کی طرف جانے کا کہا جہاں ایک صاحب نے جو اپنے لباس و اطوار سے ڈاکٹر لگ رہے تھے میرا نام، پتا اور فون نمبر کا اندراج کرنے کے بعد میرا ٹمپریچر چیک کیا۔ پھر وہ ایرانی حکام کی طرف سے جاری کیے گئے میڈیکل سرٹیفیکٹ کو دیکھ کر مسکرائے جس کی وجہ نہ مجھے سمجھ آئی اور نہ میں نے پوچھنے کی جرأت کی۔ صاحب نے ایک اور میڈیکل سرٹیفیکٹ بناکر مجھے دیا اور امیگریشن کاؤنٹر کی طرف جانے کا کہا۔ اب میرے پاس 2 میڈیکل سرٹیفیکٹس تھے، یعنی ایک ایرانی حکام کی طرف سے جاری کیا گیا تھا اور دوسرا پاکستانی حکام جانب سے۔
امیگریشن کاؤنٹر تقریباً خالی تھا۔ ایک افسر نے پاسپورٹ لیتے ہوئے پوچھا ’کہاں سے آ رہے ہیں؟‘
’تہران سے۔‘
اگلا سوال تھا کہ ’کیا آپ زیارت کے لیے بھی گئے تھے؟‘
میرا جواب نفی میں سنتے ہی پوچھا گیا کہ ’آپ تہران میں کتنے دن رہے؟‘
’تقریباً 3 ہفتے،‘ میں نے جواب دیا۔
پھر ایران جانے کی وجہ اور ویزا کی نوعیت بھی پوچھی گئی۔ یاد رہے کہ میرے پاس الیکٹرانک وزٹ ویزا تھا۔
امیگریشن افسر نے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگاتے ہوئے مجھے تاکید کی کہ اگلے کاؤنٹرز پر اپنے ویزا کی نوعیت ضرور بتاؤں۔
عمارت سے باہر جانے والے دروازے کے قریب ایک اور صاحب تشریف فرما تھے جنہوں نے تقریباً وہی سوالات دہرائے جو پہلے پوچھے جاچکے تھے۔
عمارت سے باہر نکلتے ہی ایف سی کے ایک اور جوان نے ویزا کی نوعیت پوچھی اور پاسپورٹ اپنے پاس رکھ کر انتظار کرنے کا کہا۔
سڑک کے کنارے کئی مسافر اگلے حکم کے منتظر تھے سو میں بھی وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر موبائل سے سم تبدیل کرنے لگا۔ موبائل آن کرنے پر پتا چلا کہ یہاں سگنلز نام کی کوئی شے میسر نہیں۔
سفید ٹینٹوں کا عارضی شہر میرے سامنے تھا۔ مجھے ابھی تک اس شہر کے مکینوں کی مشکلات کے بارے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ میں فٹ پاتھ پر بیٹھا اپنے سفید ٹینٹ کا تعین کرنے لگا۔
اچانک میرا نام پکارا گیا تو میں بارڈر کے خارجی دروازے کی دائیں جانب واقع آفس کی طرف چل پڑا۔ کھڑکی سے ہاتھ نکال کر میرا پاسپورٹ اور ایرانی میڈیکل سرٹیفیکٹ میرے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ پاکستانی حکام کی جانب سے جاری کیا گیا میڈیکل سرٹیفیکٹ مجھے واپس نہیں کیا گیا۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ ہمارے ریکارڈ کے لیے ہے۔
میں نے سوال کیا کہ اب مجھے کیا کرنا ہے؟ جواب آیا اب آپ جاسکتے ہیں۔
میں حیران و پریشان تھا۔ کبھی بند کھڑکی کو دیکھتا تو کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے مسافروں کو۔
سفید ٹینٹوں کی بستی کے پاس قطار در قطار بسیں پارک تھیں میں سمجھا یہی بس اسٹینڈ ہے۔ میں نے ایک راہ گیر سے پوچھا کوئٹہ کی بس کہاں سے ملے گی؟
جواب ملا بس اسٹینڈ یہاں سے تھوڑا دُور ہے۔ ٹیکسی لینا پڑے گی۔ میں نے سوال کیا کہ یہ اتنی ساری بسیں یہاں کیوں پارک ہیں؟ بتایا گیا یہ زائرین کی بسیں ہیں۔
میں نے مزید کوئی سوال کرنا مناسب نہیں سمجھا اور تھوڑی دُور کھڑی ایک ٹیکسی کی طرف چل پڑا۔
ٹیکسی ڈرائیور نے دُور سے پوچھا۔ ’جائے گا؟‘
’ہاں کوئٹہ جانا ہے،‘ میں نے جواب دیا۔
’بیٹھو ہم تم کو اڈہ پر چھوڑے گا۔‘ ڈرائیور نے جواب دیا۔
اتنی دیر میں 2 اور پاکستانی لڑکے پہنچ گئے۔ ڈرائیور سے 300 کرایہ طے ہوا تو میں نے دونوں جواں سال لڑکوں کو بھی ساتھ بیٹھنے کا کہہ دیا۔
ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ سنبھالتے ہی میں نے ڈرائیور سے سگریٹ سلگانے کی اجازت چاہی جو بخوشی دے دی گئی۔
جس کو اڈہ کہا جا رہا تھا وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کا دفتر تھا جس کے سامنے ایک بس خاموش کھڑی تھی۔ دفتر میں جاکر پوچھا کہ کوئٹہ کے لیے بس کب روانہ ہوگی؟
’تین بجے صیب (تین بجے صاحب)،‘ لکڑی کے ایک پرانے لیکن پینٹ شدہ کاؤنٹر کے پیچھے ایک پرانی گھومنے والی کرسی پر بیٹھے روایتی جثے والے اڈے منیجر نے احترام سے جواب دیا۔
’سیٹ ہے؟‘ میں نے ایک اور سوال داغا۔
’بالکل ہے صیب۔‘
’ہمیں بھی 2 ٹکٹ دے دو،‘ میرے ساتھ آئے جوانوں میں سے ایک نے کہا۔
منیجر نے جھٹ سے ایک ٹکٹ پر 3 سیٹیں کاٹ دیں۔
’نہیں، آپ میری سیٹ الگ سے کاٹیں،‘ میں نے گزارش بھرے لہجے میں کہا۔
’ٹھیک ہے صیب،‘ منیجر نے فوراً میری بات مانتے ہوئے کاٹے ہوئے ٹکٹ پر درستی کے لیے ضروری کاٹ پیٹ کی اور ٹکٹ مجھے دے دیا۔
ہزار روپے کا ٹکٹ تفتان سے کوئٹہ تک کچھ زیادہ نہیں لگا۔
ٹکٹ لے کر میں آفس سے باہر نکل آیا۔ پہلی بار احساس ہوا کہ سردی بہت زیادہ ہے۔ میں نے جیکٹ کی چین چڑھانے سے پہلے اس کی اندرونی جیب سے سگریٹ نکال کر پینٹ کی جیب میں ڈال لیے۔ اس موقعے پر مجھے اپنے سالے علی کا کہا یاد آیا کہ سگریٹ رکھ لیں راستے میں کام آئیں گے۔
دونوں نوجوان بھی اس دوران ٹکٹ خرید کر دفتر سے باہر آچکے تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا کہ ’آپ کچھ کھائیں گے؟‘
’نہیں، مجھے تو ابھی بھوک نہیں۔ لیکن اگر آپ کو بھوک لگی ہے تو بہتر ہے کچھ پھل وغیرہ کھا لیں،‘ میں نے بن مانگی تجویز دی۔
’چلیں پھر ہم کچھ کھا کر آتے ہیں،‘ بڑی عمر کے نوجوان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور دونوں ایک طرف چل پڑے۔
گاڑی چلنے میں ابھی 4 گھنٹے باقی تھے اور اتنی سردی میں ایک دفتر کے سامنے کھڑے رہ کر وقت گزارنا آسان نہیں تھا۔
’ریال بیچے گا؟‘، ایک عجیب حلیے کے بڑی عمر کے دراز قد آدمی نے بغیر دعا سلام کے پوچھا۔
’کون سا ریال؟‘
’ایرانی ریال بابا،‘ میرے سوال پر دراز قد آدمی نے کہا۔
’نہیں۔‘
’کیوں نہیں بیچے گا؟ کیا کرے گا ایرانی پیسے کا؟‘، ایک اور سوال جس کا میرے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔
آخر مجھے جان چھڑانے کے لیے کہنا پڑا کہ ’جناب میرے پاس ایرانی کرنسی نہیں ہے۔‘
میری جان چھوڑ کر وہ صاحب کم و پیش اپنے ہی جیسے حلیے کے ایک اور آدمی کے ساتھ جا ملے۔ دونوں کے ہاتھوں میں پھولے ہوئے پوسیدہ تھیلے تھے اور صاف لگ رہا تھا کہ ان تھیلوں کے اندر خریدی گئی ایرانی کرنسی ہے۔
سڑک کی دوسری جانب ایک ٹھیلے پر تازہ مالٹے دیکھ کر میری بھوک چمک اٹھی تو رہا نہ گیا۔ 2 درجن مالٹے اور کیلے خرید کر دفتر کے سامنے واپس پلٹ آیا۔ اسی دوران چند اور مسافر جمع ہوچکے تھے۔
دفتر کے سامنے آکر اپنے آئندہ کے ہم سفروں کو صلح ماری تو کسی نے انکار نہ کیا اور دیکھتے ہی دیکتے 2 درجن مالٹے اور درجن کیلے یہ جا وہ جا۔
اس پورے عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ کچھ سے گپ شب چل نکلی اور وقت گزرنے لگا۔
دونوں نوجوان کھانا کھاکر واپس آچکے تھے اور ایرانی کرنسی خریدنے والا اپنے ایک اور ساتھی کے ساتھ دوبارہ آ دھمکا۔
اس بار اس کا شکار دونوں نوجوان تھے۔ کچھ منٹوں کی بحث کے بعد سودا طے پا گیا اور کرنسیوں کا تبادلہ ہوگیا۔
مجھے کچھ دیر بعد اپنے اردگرد ایسے کئی کرنسی کے خریدار نظر آئے جن کے ہاتھوں میں چند ہزار ہزار والے پاکستانی نوٹ تھے اور کندھوں پر لٹکے ہوئے ایرانی ریالوں سے بھرے تھیلے۔
یہ منظم گروہ 2 سڑکوں کے درمیان واقع اضافی زمین پر بیٹھ کر کھلم کھلا اپنے حساب کتاب سیدھے کر رہا تھا۔ ایرانی ریالوں کی گنتی کے دوران بار بار انگلی زبان سے لگاکر گیلی کی جا رہی تھی۔ کورونا وائرس کا خوف ایک طرف اور ان صاحبان کی لا پروائی ایک طرف۔ ایسے ماحول میں کس کو فرصت کہ سوچے کرنسیوں کا یہ لین دین قانونی ہے یا نہیں۔
ایک سوٹڈ بوٹڈ صاحب روٹی ہاتھ میں پکڑے ٹرانسپورٹ کمپنی کے دفتر داخل ہوئے۔ ٹکٹ خریدا اور سائیڈ پر رکھے صوفے پر براجمان ہوگئے۔ سلام دعا ہوئی تو پتا چلا جناب بزنس مین ہیں۔ آزربائجان اور یوگینڈا کی سیر کے بعد ایران پہنچے تھے لیکن وہاں کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے مجبوراً اپنے پلان سے زیادہ رُکے رہے۔
2 بج کر 45 منٹ پر گاڑی کا دروازہ کھول دیا گیا اور مسافروں سے اضافی سامان گاڑی کے نچلے حصے میں رکھوانے کا کہا گیا۔ میرے پاس ہمیشہ کی طرح ایک ہینڈ کیری تھا جس کو میں اپنے ساتھ لے کر بس میں سوار ہوگیا۔ اللہ بھلا کرے ڈرائیور کا جس نے میرے ہاتھ سے بیگ پکڑ کر اپنی سیٹ کے پچھلے حصے میں رکھ دیا اور مجھے میری سیٹ پر بیٹھنے کا کہا۔
دیکھتے ہی دیکھتے بس بھر چکی تھی۔ مجھے اپنی کھڑکی سے ایک پکی عمر کا شخص سڑک کے کنارے ایرانی اور پاکستانی کرنسی کی دکان لگائے اونگھتا دکھائی دے رہا تھا۔ شاید اس کے لیے لازمی تھا کہ اگلی بس کے آنے سے پہلے اپنی تھکن اتار کر تازہ دم ہوجائے۔
2 مسافر جو شکل اور لہجے سے لاہوری لگ رہے تھے اپنے ڈھیر سارے سامان کے ساتھ بس کنڈیکٹر سے کسی بحث میں الجھے ہوئے تھے۔ مجھے یقین ہوگیا یہ دونوں صاحبان کاروباری ہیں اور اس روٹ پر ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے ورنہ اتنا زیادہ سامان ایسے حالات میں کون اپنے ساتھ رکھتا ہے۔
مجھے بس میں بیٹھے زیادہ تر مسافر لوکل لگے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ تفتان کے رہائشی ہیں تو انہیں ایران سے آئے مسافروں کے ساتھ کیوں بٹھایا جا رہا ہے؟ ایک بات جو دیگر مسافروں کے ساتھ بات چیت کے دوران واضح ہوچکی تھی کہ بارڈر سے صرف ایسے افراد کو چھوڑا جا رہا ہے جو ایران وزٹ یا کاروباری ویزا پر گئے تھے۔ مجھے بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ تمام کاروباری یا وزٹ ویزا پر جانے والے افراد متاثرہ شہروں یا زیارت پر نہ گئے ہوں؟
میرے برابر کی سیٹ پر ایک بڑی عمر کے بزرگ نے ماسک اور دستانے پہن رکھے تھے اور مجھے تسلی ہوئی کہ میرا پڑوسی احتیاط پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تو بعد میں پتا چلا وہ ایران سے واپس آرہے ہیں۔ میری پچھلی سیٹوں پر وہ دونوں نوجوان جو میرے ساتھ بارڈر سے ایک ٹیکسی میں آئے تھے براجمان تھے۔
ڈرائیور مسلسل ہارن بجاکر اس بات کا اعلان کر رہا تھا کہ بس اب روانگی کے لیے بالکل تیار ہے۔
بس جس رفتار سے نکلی تھی لگتا تھا کہ 11 مارچ کی صبح کا ناشتہ کوئٹہ میں ہوگا۔ اگلا پلان میرے ذہن میں ترتیب پاچکا تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ کوئٹہ پہنچ کر تھوڑا تازہ دم ہونے کے بعد ائیرپورٹ جایا جائے اور لاہور یا فیصل آباد میں سے جس شہر کی پرواز میسر ہو پکڑ لی جائے۔
لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں ابھی تک اس شش و پنج میں مبتلا تھا کہ آیا ہمیں کوئٹہ سے آگے جانے دیا جائے گا یا نہیں۔
کوئی ایک گھنٹے کی مسافت طے ہوئی تھی کہ ایک چوکی پر بس کو روک لیا گیا۔ ایف سی کے جوان بس کے اندر آتے اس سے پہلے ہی کنڈیکٹر نے ہمیں اپنے پاسپورٹ اور شناختی کارڈر نکالنے کا کہا۔
ایف سی کے جوان نے بس کے اندر آتے ہی ان تمام مسافروں سے پاسپورٹ اور شناختی کارڈز مانگ لیے جو ایران سے آ رہے تھے۔ یہاں پتا چلا کہ اس بس میں مجھ سمیت صرف 11 مسافر ایران سے واپس آئے ہیں اور باقی سارے تفتان کے رہنے والے ہیں۔
سوال پھر وہی تھا کہ باقی کے 22 مسافروں کو اس بس میں ہمارے ساتھ سفر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ایف سی کے جوان نے سمری کو سادہ کاغذ پر لکھنے کے بعد بس کو آگے جانے کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد تو یوں لگا کہ چوکیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر چوکی پر پاسپورٹ لیے جاتے، شناختی کارڈز دیکھے جاتے اور پھر بس اپنی منزل کی طرف چل پڑتی۔ مجھے اتنی زیادہ چیکنگ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ بس نے محفوظ روٹ اختیار کیا ہے ورنہ چند سال پہلے دیکھی ویڈیوز کا خوف میرے ذہن میں اب بھی تھا جس میں ایران سے آنے یا جانے والے مسافروں کو بسوں سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ان ویڈیوز کے بارے میں بس اسٹینڈ کے منیجر سے تفصیلی گفتگو ہوچکی تھی اور بقول منیجر اب وہ حالات نہیں ہیں اور یہ کہ وہ سب پیسے کا کھیل تھا۔ اب اللہ جانے کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ لیکن بس میں موجود وہ تمام مسافر جو اس روٹ پر پہلی بار سفر کر رہے تھے اس زبردست چیکنگ کے نظام کو دیکھ کر خود کو محفوظ تصور کر رہے تھے۔
اس دوران پچھلی سیٹوں پر بیٹھے دونوں نوجوانوں کے نام بھی معلوم ہوچکے تھے۔ دونوں سگے بھائی مصطفی اور فرمان ایران محنت مزدوری کے لیے گئے تھے۔ دوسری جانب ایک شخص جس کا نام اعجاز تھا، وہ نسبتاً زیادہ عمر کے مسافر کے ساتھ کسی بحث میں مصروف تھا۔
بس ایک اسٹاپ پر رکی تو 2 خواتین 2 لڑکوں کے ساتھ سوار ہوئیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دونوں خواتین میں سے ایک کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بس کے کنڈیکٹر کو بار بار بس کی پچھلی سیٹوں پر جاکر اس ابنارمل خاتون کو چپ کرانا پڑتا جو بظاہر دونوں لڑکوں کے قابو سے باہر ہوجاتی تھی۔
اب ایک بار پھر نسبتاً بڑی عمارت کے سامنے بس کو دوبارہ رکنے کا کہا گیا۔ اس بار تمام مسافروں کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جمع کرکے عمارت میں موجود کنٹرول روم میں بھجوا دیے گئے۔ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد ان تمام مسافروں کو کنٹرول روم میں طلب کرلیا گیا جو ایران سے آرہے تھے۔
ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ معاملات زیادہ سنگین ہیں۔ ایک مسافر سے دوبارہ پرانے سوالات پوچھے گئے۔ معلومات درج کی گئی پاسپورٹ کی تصاویر موبائل کیمرے سے لی گئیں۔ کنٹرول روم میں موجود افسر واکی ٹاکی پر مسلسل ہدایات لے رہا تھا۔ ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جارہا تھا۔ تفتان کے رہائشی اس بات پر سخت ناراض نظر آ رہے تھے کہ ایران سے واپس آئے مسافر ان کے لیے زحمت کا سبب بنتے جا رہے تھے۔ دونوں گروپوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ ایف سی کے جوانوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی بحث و تکرار کے بعد بس کو دوبارہ روانہ کیا گیا۔
بس ڈرائیور کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ بس کو شاید کوئٹہ داخل نہ ہونے دیا جائے لہٰذا جو مسافر اترنا چاہے اتر جائے۔ بعد میں یہ آفر ان مسافروں کو باقاعدہ اعلان کے ساتھ دی گئی کہ جو ایران سے آئے تھے۔ مجھ سمیت چند دوستوں کو یہ آفر پسند نہ آئی جس کا اظہار ہم نے وہیں کردیا۔ ہمارے اس اظہار کے بعد ہمیں بس کے عملے اور دیگر تفتانیوں کی جلی کٹی سننا پڑیں۔ پھر کہا گیا کہ اگلی چیک پوسٹ پر کوئی پاسپورٹ نہ دکھائے مجھے یہ ہدایت بھی انتہائی بچگانہ لگی۔
11 مارچ
نصف شب تمام ہوچکی تھی۔ مجھ سمیت تمام ہی مسافروں کا نیند اور تھکن سے بُرا حال تھا۔ ہلکی بارش اور تیز ہوا نے سردی کے اثر کو کئی گنا بڑھا دیا تھا۔ بس کا ہیٹر اپنی بھرپور کوشش کے باوجود کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ مسلسل چیکنگ کی وجہ سے بار بار آنکھ کھل جاتی۔ کئی چیک پوسٹ تو غنودگی کے عالم میں گزر گئیں جن کا احوال مجھے یاد نہیں۔ میں اپنے تئیں کوئٹہ میں ایک شب قیام کا فیصلہ کرچکا تھا۔ مجھے تہران سے نکلے 24 گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن اس دوران سونے یا کمر سیدھی کرنے کا کوئی ایک موقع بھی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ خدا جانے باقی مسافر جو ایران سے آرہے تھے کن مشکلات سے گزرے تھے۔
صبح تقریباً 3 بجے بس کوئٹہ سے باہر ایک علاقے میاں غنڈی پہنچی تو ایک بار پھر ایک چوکی پر روک لیا گیا۔ ایک بس وہاں پہلے سے موجود تھی۔ اللہ بھلا کرے گوگل میپ کا جس نے بتایا کہ کوئٹہ یہاں سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی ہے۔ مسافروں میں یہ خیال زور پکڑ چکا تھا کہ بس کو اس سے آگے نہیں جانے دیا جائے گا۔
3 گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد ایک صوبیدار صاحب بس میں داخل ہوئے۔ انتہائی محبت بھرے اور دوستانہ انداز میں مسافروں کی خیریت دریافت کرنے کے بعد پاسپورٹ اور شناختی کارڈ طلب کیے۔ اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ آپ کو ایک قریبی سینٹر میں بھیجا جائے گا جہاں معمولی چیک اپ کے بعد تمام مسافروں کو جانے دیا جائے گا۔ حالانکہ بیشتر مسافر اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ کوئی پاسپورٹ نہیں دکھائے گا لیکن صوبیدار صاحب کی دی گئی ضمانت اور محبت بھرے لہجے نے سب کو مجبور کردیا کہ کچھ نہ چھپایا جائے۔ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لینے کے بعد جلد واپس آنے کا کہہ کر صوبیدار صاحب سڑک کے کنارے رکھے عارضی کیبن میں تشریف لے گئے۔
کافی دیر گزر جانے کے بعد روانگی کی اجازت نہ ملنے پر بس کے عملے اور تفتان کے باسیوں کی جانب سے ایران سے واپس آنے والے مسافروں پر لعن طعن کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ بس کے عملے کا خیال تھا کہ ایران سے واپس آنے والے اگر ان کی بات مان کر راستے میں کہیں اتر جاتے تو سب کو اس اذیت سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔
اعجاز جو سیٹوں کی دوسری صف میں بیٹھا تھا شدید ناراض تھا کہ ہم نے عملے کی تجویز کیوں نہ مانی۔ میں نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کوشش کی کہ مسافروں کو اس بات پر قائل کروں کہ راستے میں اترنا کسی بھی صورت ٹھیک نہیں تھا۔ تمام دلیلیں شور شرابے کہ نظر ہونے لگیں تو میں نے چپ سادھنے میں غنیمت جانی۔
صبح کی روشنی پھیل چکی تھی اور سڑک کی دوسری جانب مسجد کا مرکزی دروازہ بند تھا۔ کوئی نمازی قضا پڑھتا نظر نہیں آرہا تھا۔ تھکے ہارے ناراض مسافر بس سے اتر کر اپنی اپنی پریشانی کا رونا رو رہے تھے۔ جو بس میں سوار تھے بار بار پہلو بدل کر تھکن کم کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔
آخرکار صوبیدار صاحب دوبارہ اپنے 2 ساتھیوں کے ساتھ لوٹے اور بس مسافروں کی گنتی شروع کی۔ صوبیدار صاحب کو یقینی طور پر بس میں موجود ٹھیک تعداد کی اطلاع دی جاچکی تھی لیکن بس کا عملہ گنتی میں خود کو شامل نہ کرکے خوامخواہ کی کنفیوژن پیدا کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھا۔ صوبیدار صاحب کو مجبوراً سخت الفاظ کا استعمال کرنا پڑا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسافروں کی تعداد جھٹ سے برابر ہوگئی۔ حساب کتاب برابر ہونے کے بعد صوبیدار صاحب نے کہا کہ ہم آپ کو اپنی نگرانی میں طبّی مرکز لے کر جائیں گے۔
بس حرکت میں آچکی تھی اور بس کے آگے پیچھے ایف سی کی 2 گاڑیاں نگرانی کر رہیں تھیں۔ جن کو اب بھی جان خلاصی کی امید تھی ان کا خیال تھا کہ مزید کچھ گھنٹے ضائع ہوں گے۔ 10 منٹ کے بعد بس ایک بہت بڑی عمارت کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا اور شدید سرد ہوا کی رفتار ناقابلِ برداشت حد تک تیز تھی۔ بس کا انجن خاموش ہونے کی وجہ سے بس کے اندر کا درجہ حرارت مسلسل گر رہا تھا۔ مسافروں نے ایک دو بار بس کے عملے سے التجا کی کہ بس کو اسٹارٹ رکھا جائے تاکہ اندر کا درجہ حرارت مزید کم نہ ہو۔ لیکن بس کا عملہ کوئی درخواست ماننے کو تیار نہیں تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر صاحب 9 بجے تشریف لائیں گے لہٰذا تمام مسافر تحمل کے ساتھ بس کے اندر تشریف رکھیں۔
خدا کا شکر کہ ہماری بس میں کوئی بچہ نہیں تھا ہاں ایک خاتوں ضرور تھیں جن کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں جو وقفے وقفے سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں تنہا سفر پر نکلا تھا۔
ویسے میں تہران میں 2، 4 ہفتے مزید بھی گزار لیتا تو کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی۔ میرے وزٹ ویزے کی معیاد ایک ماہ کی تھی جسے میں باآسانی بڑھوا سکتا تھا لیکن حالات و واقعات ایسے تھے کہ گھر بیٹھ کر حالات کے بہتر ہونے کا انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میری آخری منزل پاکستان نہیں سعودی عرب تھی اور مجھے ڈر تھا کہ حالات بہتر ہو بھی جائیں تو میں تہران سے ریاض کا سفر آسانی سے نہیں کر پاؤں گا اور مجھے بہرحال پاکستان جانا ہوگا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے جانان کی اماں کی مخالفت کے باوجود پاکستان آنے کے لیے زمینی راستہ اختیار کرنا پڑا۔
9 بج چکے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب جن کا انتظار بڑی شدت سے کیا جارہا تھا ان کا دُور دُور تک کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ آئندہ پیش آنے والی صورتحال کا اندازہ سہی طور پر کسی کو نہیں تھا۔ ایف سی اور پولیس کے جوان آتے اور مسافروں پر ایک نظر ڈال کر دوبارہ غائب ہوجاتے۔ تفتان سے چلے 18 گھنٹوں سے زیادہ گزر چکے تھے لیکن سفر تمام ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
آس پاس کہیں واش روم یا پانی کا انتظام بھی نہیں تھا۔ کچھ مسافر سامنے موجود عمارت کے اندر کا چکر لگا آئے تھے جن سے پتا چلا کہ ابھی تک عمارت کے اندر رہنے کی سہولیات تو کجا صفائی بھی مکمل طور پر نہیں کی گئی۔ ہمارے سامنے بڑے سے میدان میں قطار در قطار خیموں کی بستی تیار کھڑی تھی جن میں رات گزارنے کا تصور بھی دل دہلانے کے لیے کافی تھی۔ تیز ہوا سے جب خیمے پھڑپھڑاتے تو سردی کا احساس کئی گنا بڑھ جاتا۔
اب ساڑھے 10 بج چکے تھے اور یہ بات بہت حد تک واضح ہوتی جارہی تھی کہ تمام مسافروں کو انہی خیموں میں ٹھہرایا جائے گا۔ میں جو پہلے ہی اس بات کا ارادہ کرچکا تھا کہ اگر ہمیں یہاں نہ ٹھہرایا گیا تو گھر جاکر خود کو 14 دن تنہائی میں رکھوں گا مطمئن تھا کہ وبا سے نمٹنے کا سہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ہاں اگر ایران سے آئے مسافروں کو بقیہ مسافروں سے الگ رکھا جاتا تو یقینی طور پر انتظامیہ پر کم دباؤ پڑتا۔ کیمپ پر اٹھنے والے اخراجات میں بھی یقینی کمی لائی جاسکتی تھی۔
ناشتہ آچکا تھا اور تمام مسافروں کو ناشتے کی دعوت دی گئی۔ مسافروں نے جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر مخلتف ٹولیوں میں بٹ کر ناشتہ کیا۔ اللہ بھلا کرے مصطفیٰ، فرمان اور اعجاز کا جو میرے لیے بھی ناشتہ لے آئے۔ بھوک تو تھی لیکن سخت سردی نے زیادہ اجازت نہ دی کہ سیر ہوکر پیٹ پوجا کی جاسکے۔ اسی دوران عمارت کے اندر صفائی کا کام شروع ہوچکا تھا۔
انتظامیہ کے سرکردہ افراد کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا۔ ڈاکٹرز کی ٹیم آئی تو مسافروں کے ٹمپریچرز لیے گئے۔ مجھے ڈاکٹروں کی ٹیم سے بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے اس بات پر زور دیا کہ جلد از جلد مسافروں کو کمرے الاٹ کرکے ہجوم کو سمیٹا جائے تاکہ مزید غیر یقینی صورتحال سے بچا جاسکے، کیونکہ ایران سے آئے مسافروں کے علاوہ تمام مسافر اس بات پر بضد تھے کہ انہیں جانے دیا جائے۔ بس کا عملہ جلد از جلد وہاں سے جانا چاہتا تھا۔ لیکن انتظامیہ کی ثابت قدمی سے یہ بات عیاں تھی کہ کسی کو بھی جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اورنگزیب بادینی اپنی ٹیم کے ساتھ تشریف لائے اور تحمل و بردباری سے مسافروں کے تلخ سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ مسافروں کی جانب سے لگاتار تنقید کے باوجود کمشنر صاحب کے لہجے میں کوئی تلخی نہیں آئی۔ مسافروں سے گفتگو کے ساتھ ساتھ موقعے پر موجود انتظامیہ کو ہدایات بھی جاری کی جاتی رہیں۔ آخر میں ایک بار پھر مسافروں کو بہترین خدمت کا یقین دلاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر صاحب واپس تشریف لے گئے۔
آرمی کے ایک اعلیٰ افسر بھی تشریف لائے اور خیموں کی عارضی بستی کو دیکھ کر کہا کہ ان خیموں میں صرف فوجی رہ سکتے ہیں عام آدمی ایسے خیموں میں ایسے موسم میں رات نہیں گزار سکتا لہٰذا کسی مسافر کو ان خیموں میں نہ رکھا جائے۔ شکریہ جناب
دوپہر 2 بجے مسافروں کو کھانا کھلایا گیا۔ گاڑھے شوربے والا لذید مرغ دیکھ کر مسافروں کی بھوک چمک اٹھی۔ کھانے اور کھلانے کے دوران کچھ بدنظمی ضرور دیکھنے میں آئی جسے ایسے حالات میں نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
میڈیا کے چند لوگ اپنی من پسند کہانیاں اکٹھی کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ کے کیمرے پریشان حال اور تھکے ہارے لوگوں کی شکایتیں ریکارڈ کررہے تھے اور کچھ کیے گئے انتظامات اور بہترین کھانے کو خبر بنانے میں مصروف تھے۔
مغرب ہوچکی تھی لیکن رہائش کا کیا انتظام ہوگا ابھی تک اس کی وضاحت نہیں ہوسکی تھی۔ صفائی کرنے والی ٹیم اپنے تئیں اپنی کوشش میں مصروف تھی لیکن لگتا تھا کہ عمارت اس سے پہلے کسی استعمال میں نہیں تھی۔ ہر طرف بکھرا ہوا کاٹھ کباڑ، ٹوائلٹس میں پانی کی کٹی ہوئی لائنیں، بجلی کا بندوبست۔ یہ سارےکام اتنے کم وقت میں کرنا انتہائی مشقت طلب کام تھا۔ اس وقت تک اعجاز، مصطفیٰ، فرمان، نعمان، اقبال صاحب اور فاروق سے دوستی ابتدائی مراحل میں داخل ہوچکی تھی۔ ہمارے درمیان طے یہ پایا کہ باہر سردی میں بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کہ ایک کمرہ اپنی مدد آپ کے تحت صاف کرلیا جائے۔
مصطفیٰ، فرمان، نعمان اور فاروق نے کمر کس لی اور انتخاب کیے گئے کمرے کی صفائی شروع کردی۔ مجھے، اقبال صاحب اور اعجاز کو غیر اعلانیہ سینئر تسلیم کرتے ہوئے کام کرنے سے منع کردیا گیا۔ رب سائیں ان نوجوانوں کا بھلا کرے۔ ہم تینوں سینئرز سے بھی جو بن پڑا کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کمرے کی شکل نکل آئی جو ایک گھنٹہ پہلے کچرے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ باقی مسافروں نے بھی دیکھا دیکھی اپنی مدد آپ کی تحت اپنے اپنے عارضی ٹھکانوں کی صفائی ستھرائی کا بیڑا اٹھا لیا۔
کام چل نکلا تو انتظامیہ کے ارکان نے نئی رضائیاں، تکیے، چادریں، چارپائیاں، گیس کے سلینڈرز، یہاں تک کہ ایک بیگ بھی فراہم کیا گیا جس میں روزانہ ضروریات کی چیزیں مثلاً صابن، ٹوتھ پیسٹ بمعہ برش، تولیہ، سینیٹائزرز وغیرہ موجود تھے۔ ایسے میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور اگلے 3 گھنٹوں میں تمام ہی مسافر اپنے اپنے کمروں میں لیٹے گپ شپ میں مصروف ہوگئے۔ واش رومز میں پانی کا مسئلہ البتہ اپنی جگہ موجود تھا۔ واش رومزر کی ٹوٹیاں کچھ مسافروں نے غصے میں توڑ دیں جس سے کام بڑھ گیا تھا۔ عمارت کی چھت پر پانی کی ٹنکیاں رکھی جاچکی تھیں لیکن پانی کا کنیکشن ابھی بحال نہیں کیا جاسکا تھا۔ پانی کی کچھ اضافی ٹنکیاں عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ رکھ بھی دی گئیں جس سے مسئلہ وقتی طور پر حل ہوگیا۔
رات کا کھانا آیا تو مسافر کھانا لانے والی گاڑی کی طرف دیوانوں کی طرح دوڑے جیسے بیچارے صدیوں سے بھوکے پیاسے کسی قید خانے میں قید ہوں۔ کھانے کا ضیاع یوں ہوا کہ اکثر مسافروں نے اس شک میں کہ کل صبح کچھ کھانے کو ملے نہ ملے اپنے اپنے کمروں میں اضافی کھانا چھپا لیا۔ لیکن اچھی بات یہ رہی کہ کھانا پھر بھی سب تک پہنچا۔
12 مارچ
12 مارچ کی صبح تک واش رومز کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا تھا حالانکہ عمارت سے باہر پانی کی ٹنکیاں موجود تھی لیکن بند واش رومز کیمپ میں موجود 100 سے زائد مسافروں کی ضروریات سے بہت کم تھے۔ گزشتہ رات صاف کی جانی والی عمارت کی راہداری دوبارہ کچرے کا ڈھیر بن چکی تھی۔ ضائع شدہ کھانے کی بُو قابلِ برداشت سہی لیکن کوفت کا سبب بن رہی تھی ایسے میں وہ مسافر جن کو زبردستی اس عمارت میں ٹھہرایا گیا تھا ان کے ہاتھ ایک اور بہانہ لگ گیا۔ وہ ایک بار پھر انتظامیہ سے الجھ پڑے۔ میں نے پاکستان سیٹیزن پورٹل اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے فیس بک اکاؤنٹ پر الگ الگ پیغامات بھیجے کہ شاید کچھ شنوائی ہو۔ انتظامیہ کے چند نمائندگان نے مسئلے کو فوری بنیادوں پر حل کرنے کی یقین دہانی کرا کر مسافروں کی ناراضی کو کم کیا اور بمشکل کمروں میں واپس بھیجا۔
ناشتہ آیا تو مسافر اپنی پریشانی بھلا کر دوبارہ لوٹ مار کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ایسے مقامات و موقعوں پر لائن نہ بنانا ہماری قوم کی عادت ہے۔ ناشتے میں چنے، آملیٹ، پراٹھا اور چائے دی گئی۔ چائے کے شوقین حضرات نے چائے پانی کی خالی بوتلوں میں ڈال کر ذخیرہ کرلی۔ ایک گھنٹے بعد راہداری سے گزرنے والے مسافروں کی لمبی لمبی ڈکاریں اس بات کا پتا دے رہی تھیں کہ جہنم اگلے گچھ گھنٹوں کے لیے بھر چکے ہیں۔
مسافر کافی وقت ایک ساتھ گزار چکے تھے۔ نئی دوستیاں وجود میں آچکی تھیں۔ کمروں میں موجود مسافر ایک دوسرے کو نام سے پہچاننے لگے تھے۔ کس نے کھانا لانا ہے کس نے پانی کا بندوبست کرنا ہے یہ سب کچھ کمرے کے مکینوں کے درمیان طے پاچکا تھا۔ ہم 7 لوگ جو ایک کمرے میں تھے ایک دوسرے کو اپنا تعارف کروا چکے تھے۔ تعارف اتنے تفصیلی نہیں تھے لیکن اتنا پتا چل چکا تھا کہ کون کہاں سے ہے؟ کہاں سے آ رہا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
جیسے پہلے ذکر ہوچکا کہ میرے کمرے میں 2 سگے بھائی موجود تھے جن میں سے مصطفیٰ بڑا اور فرمان چھوٹا تھا دونوں بھائی کام کے سلسلے میں ایران گئے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مصطفیٰ شاید 3 ماہ کے بعد پاکستان واپس آرہا تھا اور وہ گھر جاکر اپنے نومولود بیٹے کو دیکھنے کے لیے بے چین تھا۔ جبکہ چھوٹا بھائی فرمان سال بعد گھر واپس لوٹ رہا تھا۔
اعجاز بھی کوئی ایک یا 2 ماہ ایران میں گزار کر پلٹا تھا۔ اعجاز سونے کے زیورات کے سانچے بنانے کا کام کرتا ہے اور فیصل آبادی ہونے کی وجہ سے حاضر جواب اور ہنس مکھ واقع ہوا تھا۔
نعمان اور فاروق تفتان میں ہی کسی ہوٹل پر مزدوری کرتے تھے اور ہم ایران سے واپس آئے مسافروں کے ساتھ مفت کی قید کاٹ رہے تھے۔ دونوں کا تعلق کراچی سے تھا۔
اقبال صاحب جو ہم سب سے عمر میں بڑے تھے لاہور میں اپنا بزنس چلاتے ہیں۔ اقبال صاحب اپنی سنجیدہ طبیعت اور گم گوئی کی وجہ سے گھلنے ملنے میں زیادہ وقت لے رہے تھے۔ جناب چائے کے انتہائی شوقین ثابت ہوئے تھے لہٰذا ہمارے کمرے میں آنے والی اضافی چائے پر جناب کا حق تھا۔ آپ نے ہم پر کئی بار واضح کیا کہ ان کی صبح کی ابتدا چائے کے گرم گرم کپ سے ہوتی ہے۔
ظہر سے کچھ دیر پہلے تمام کمروں میں اسپرے کیا گیا۔ راہداری کو ایک بار پھر صاف کیا گیا۔ پانی کے مسئلے کو حل ہوتے ہوتے مغرب ہوچکی تھی۔ اس دوران عمارت کی پچھلی جانب واقع کھلا ایریا لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے کام آیا۔
یہ کیمپ تفتان بارڈر سے تقریباً 650 کلومیٹر دُور میاں غنڈی میں واقع تھا جس سے کوئٹہ شہر کا فاصلہ صرف 20 سے 25 کلو میٹر تھا۔ کوئٹہ شہر اور میاں غنڈی میں واقع کیمپ کے چاروں طرف واقع بلند و بالا پہاڑوں پر پڑی برف دھیرے دھیرے پگھل رہی تھی۔ پہاڑوں سے اتری کاریز کے آخری مقام کا اندازہ کمیپ سے لگانا مشکل تھا۔
رات ہوئی تو میں اپنے کمرے سے نکل کر ایک ایسی جگہ کھڑا ہوگیا جہاں سے کوئٹہ شہر کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ حالات مختلف ہوتے تو شاید میں سگریٹ ختم ہوتے ہی کمرے میں لوٹ آتا لیکن یہ احساس بہت اذیت دے رہا تھا کہ مجھ سمیت درجنوں مسافروں کو اس ویرانے میں اس لیے قید رکھا گیا تھا کہ سامنے نظر آنے والی آبادی کو محفوظ رکھا جاسکے۔ مجھے لگا میں ڈریکولوں کی بستی میں قید ہوں۔ انسان کے پاس وقت زیادہ ہو تو بیٹھ کر کہانیاں گھڑتا ہے اور یہی ہوا اس رات میرے ساتھ۔ وسوسے ایسے تھے کہ جن سے جان چھڑانا آسان نہیں تھا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ سوچ پر قابو پانا کتنا مشکل کام ہے۔
13 مارچ
13 مارچ کی صبح ذرا دھوپ نکلی تو مسافروں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔ یہ خبر عام تھی کہ کورونا وائرس دھوپ کہ وجہ سے بڑھنے والے درجہ حرارت سے اپنی موت آپ مرجائے گا۔ خدا کرے ایسا ہی ہو کیونکہ اب تک تو اس آفت کا کوئی توڑ ایجاد نہیں ہوسکا تھا۔
باہر روڈ پر ٹرانسپورٹرز اور علاقائی لوگوں کی جانب سے کی جانے والی ہڑتال کی خبر عام تھی۔ ٹرانسپورٹرز اپنے عملے کو اس قید سے چھڑا کر لے جانا چاہتے تھے تو دوسری طرف علاقائی لوگ ایسے لوگوں کی رہائی چاہتے تھے جو تفتان سے ہمارے ساتھ سوار ہوئے تھے۔
کیمپ میں موجود ایک مولانا صاحب باقاعدگی سے اذان اور جماعت کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ دن میں ایک دو بار ایک مجمع بناکر اس بات پر قائل بھی کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ ہمیں یہاں رکھ کر ظلم کیا جا رہا ہے اور ظلم کے خلاف بولنا ایمان کی نشانی ہے۔ سادہ مزاج لوگ امام کی بات مان کر کئی بار جلوس کی شکل میں انتظامیہ کے پاس جان خلاصی کی ڈیمانڈ لے کر گئے لیکن شنوائی نہ ہوئی۔
کیمپ کو 3 گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا تھا۔
- ایک وہ جو ایران بالکل نہیں گیا تھا،
- دوسرا وہ جو ایران گیا لیکن متاثرہ علاقوں میں نہیں گیا اور
- تیسرا وہ جو زیارتی مقامات سے ہوکر واپس آ رہا تھا۔
اسی طرح فکری اعتبار سے کیمپ میں 2 طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔ 100 سے کچھ زیادہ خیمہ نشین 6 سے 7 زبانیں بول رہے تھے۔ یہ ہر لحاظ سے ایک پیچیدہ مجمع تھا جو حادثادتی طور پر اکٹھا ہوگیا تھا۔ انتظامیہ کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کسی بھی بدمزگی کی صورت میں کوئی درمیانی راستہ نکالا جائے جس سے اس حادثاتی ہجوم کی تسلی ہوسکے۔
اچانک شدید شور سنائی دیا تو نعمان نے کھڑکی سے باہر جھانک کر وجہ جاننے کی کوشش کی۔ باہر 20 سے 25 افراد کا مشتعل گروہ ڈنڈے اور پتھر ہاتھ میں لیے عمارت کے مرکزی دروازے پر کھڑا تھا جس کو روکنے والا فی الوقت کوئی نہیں تھا۔ فاروق میرے منع کرنے کے باوجود باہر کی خبر لینے کمرے سے نکلا۔
میں نے باقی دوستوں سے بھی کمرے سے نہ نکلنے کا کہا۔ نعمان جو ابھی تک کھڑکی کے ساتھ لگا کھڑا تھا، اس نے بتایا کہ انتظامیہ کے کچھ لوگ ناراض گروہ سے بات چیت کرنے پہنچ گئے ہیں۔ فاروق کی واپسی تک ہم میں سے کسی کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔
فاروق نے واپس آکر جو کہانی بیان کی وہ کم از کم میرے ہوش اڑانے کے لیے کافی تھی۔ 2 مختلف مسالک کے افراد کے درمیان بحث ہوئی جو شدت اختیار کرگئی۔ یہ معاملہ بتدریج شدت اختیار کرتا چلا گیا اور انتظامہ مسلسل کوشش کررہی تھی کہ کسی طرح معاملے کو حل کیا جائے۔ جن سے غلطی ہوئی وہ بھی معافی مانگ رہے تھے مگر احتجاج رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔