700 قیدیوں کی رہائی، وزارت قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی توثیق کردی
اسلام آباد: وزارت قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے حکم کے مطابق 700 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کے حکم کی توثیق کردی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم پر عملدرآمد کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کی حدود میں جن قیدیوں کے مقدمات زیر التوا ہیں وہ راولپنڈی جیل میں قید ہیں۔
مزید پڑھیں: قیدیوں کی رہائی کا معاملہ، بار کونسلز کی ہائیکورٹ کے فیصلے کی حمایت
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدی ہیں اور وہاں کی حالت بہت خراب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت سارے قیدیوں کی عدالت تک رسائی نہیں کیونکہ وہ وکیل کی پیشہ وارانہ خدمات کا خرچ نہیں اٹھا سکتے، اکثر کو جیل میں نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ عدالت کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ آئینی حقوق کی حفاظت یقینی بنائے، ہمیں قیدیوں کی بہبود خصوصاً ان کی زندگی کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
تاہم جب ہائی کورٹ کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے 5رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے تو اسلام ہائی کورٹ نے اپنے ہی حکمنامے پر عملدرآمد کو خود ملتوی کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کی رہائی، ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع خبر کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے حکمنامے سے خوش نہیں اور سیکریٹری قانون خشی الرحمٰن سے دریافت کیا کہ آیا یہ خبر درست ہے یا نہیں۔
خشی الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کو گنجائش سے زائد قیدیوں کی حامل جیلوں سے قیدیوں کی رہائی پر کوئی اعتراض نہیں البتہ وہ اس بات کی کوئی بھی مناسب وجہ نہ بتا سکے کہ عام سی خبروں پر فوری طور پر ایکشن لینے والی وزارت قانون نے آخر اس خبر کے حوالے سے کوئی وضاحت کیوں طلب نہیں کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سیکریٹری قانون کو ہدایت کی کہ وہ قانون کی عملداری یقینی بنانے کے حوالے سے لیے گئے اقدامات پر رپورٹ جمع کرائیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان عالمی سطح پر قانون کی عملداری یقینی بنانے والے 128 ملکوں کی فہرست میں 3 درجہ تنزلی کے بعد 117 سے 120ویں نمبر پر آگیا ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل سے معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم
عدالت نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں اور کہا کہ قانون کی عملداری یقینی بنانے کے انڈیکشن کے فریم ورک میں 8 عناصر کرپشن کی غیرموجودگی، طاقتور حکومت، آزاد حکومت، بنیادی حقوق، قانون کی عملداری اور سیکیورٹی، ریگولیٹری نفاذ، سول انصاف اور فوجداری انصاف سے متعلق ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ فوجداری انصاف کے حصے میں جیل بھی شامل ہے یعنی یہ سوال کرنا کہ کیا اصلاحی نظام مجرمانہ سلوک کو کم کرنے کے لیے مؤثر ہے، ان میں سے بیشتر اجزا ایگزیکٹو حکام کے خصوصی ڈومین میں ہیں اور عدالتیں اس کے مؤثر نفاذ / کارکردگی پر منحصر ہیں۔
وزارت قانون و انصاف سے پوچھا گیا کہ کیا وفاقی حکومت نے رول آف لا انڈیکس 2020 پر غور کیا ہے؟
اس پر سیکریٹری قانون نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے وقت کی درخواست کی۔
عدالت نے یہ بھی دریافت کیا کہ کیا سستے اور تیز رفتار انصاف کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے اور ان کے نفاذ سے متعلق پارلیمنٹ کے سامنے صدر کے ذریعے رپورٹ پیش کرنے کی آئینی ضرورت کو پورا کیا گیا ہے؟ سیکریٹری لا نے ایک مرتبہ پھر رپورٹ جمع کرانے کے لیے وقت مانگا۔
یہ بھی پڑھیں: یمن سے سعودی عرب کے سرحدی شہروں پر میزائل حملے
چیف جسٹس نے کہا کہ چونکہ زیادہ تر قیدی مالی رکاوٹوں کی وجہ سے عدالتوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے لہٰذا مختلف قوانین کے تحت ایگزیکٹو کا فرض ہے کہ وہ کارروائی کرے تاکہ قیدیوں کو غیر ضروری طور پر جیل میں نہ رکھا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ اور ایگزیکٹو حکام کا فرض ہے کہ ہر قیدی کی عدالتوں تک رسائی کو یقینی بنائیں اور اس طرح کے سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا آئینی ذمہ داری کا لازمی جزو ہے۔
اس کے بعد عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر اور ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ خان نیازی سے کہا کہ وہ ریاست کی آئینی ذمہ داری کو سستا اور جلد انصاف کی فراہمی کے ضمن میں آئینی عدالتوں کے اختیارات کے سلسلے میں ان کی مدد کرے۔
عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ 'ان سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی طریقہ کار تجویز کریں'ِ جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت 24 اپریل تک کے لیے ملتوی کردی۔
یہ خبر 29مارچ 2020 بروز اتوار کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔