کورونا وائرس سے بڑھتی بیروزگاری: کراچی سے رکشے پر پختونخوا جانے والے دوستوں کی کہانی
جب پوری دنیا کو کورونا نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور ہر طرف کورونا کی خبریں سننے، پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس بیچ سوشل میڈیا پر کراچی سے بذریعہ رکشہ خیبرپختونخوا پہنچنے والے 4 دوستوں کی ویڈیو وائرل ہوگئی جس نے دیکھنے والوں پر حیرت کے پہاڑ توڑ دیے۔ ذرا اندازہ تو کیجیے، کراچی سے خیبرپختونخوا اور وہ بھی رکشے میں!
رکشے پر تقریباً 1700کلومیٹر طویل اور جوکھوں بھرے اس سفر کی جرأت کرنے والوں میں سے ایک شریف زادہ سے فون پر جب رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے 3 دوست کراچی میں رکشہ چلا کر روزی کماتے تھے۔
وہ اپنے سفر کی کہانی سنانے کی ابتدا کرتے ہوئے بتاتے ہیں 'جب کچھ دن پہلے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر شہرِ کراچی میں ہوٹل، کاروباری مراکز، دفاتر و دیگر مقامات کو بند کردیا گیا اور سڑکوں پر لوگوں کا رش خاصا کم ہونے لگا تو ان احتیاطی اقدمات کا خمیازہ ہمارے روزگار کو بھگتنا پڑا۔ پھر اوپر سے ہوٹلوں کے شٹر بند ہوئے تو روٹی کھانے کے بھی لالے پڑگئے۔ بے روزگاری سے تنگ آکر ہم چاروں دوستوں نے اپنے آبائی گاؤں شانگلہ جانے کا فیصلہ کیا'۔
یہاں ایک اضافی بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بہت ہورہی ہے۔ جب ان چاروں دوستوں کی روانگی اور پختونخوا پہنچنے کی خبریں سامنے آئیں تو ابتدائی طور پر کہا گیا کہ یہ دوست بونیر سے تعلق رکھتے ہیں، مگر شریف زادہ نے اس خبر کو خود یہ کہہ کر غلط ثابت کیا کہ ان کا تعلق درحقیقت شانگلہ سے ہے۔
خیال رہے کہ یہ فیصلہ کورونا کے خوف سے نہیں بلکہ خالصتاً بے روزگاری اور ہوٹلوں کی بندش کی وجہ سے ہوا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ، 'ٹکٹیں بُک کرانے کے لیے مختلف بس سروسز سے رابطہ کیا لیکن کوئی بس یا کوچ نہ ملی۔ پھر طویل آپسی مشاورت کے بعد ہم نے اپنی 3 پہیوں والی سواری پر اس طویل سفر کو کاٹنے کا فیصلہ کیا'۔
چاروں دوستوں نے اپنے رکشوں میں سب سے تگڑے اور مضبوط رکشے کا انتخاب اور 24 مارچ بروز منگل رات 10 بجے کراچی سے سفر شروع کیا اور 27 مارچ بروز جمعہ شب 11 بجے اپنی منزل مقصود یعنی ضلع شانگلہ کی یونین کونسل چوگا میں واقع اپنے گاؤں بینہ پہنچ گئے۔
45 سالہ شریف زادہ کہتے ہیں کہ 'سفر کے دوران چھوٹے موٹے حادثات و دلچسپ حالات کا سامنا ہوا۔ ایک بار کتوں کی جان بچانے کی کوشش میں رکشہ ہی الٹ گیا جس کی وجہ سے میرے ہاتھ اور پیروں پر کافی چوٹیں آئیں اور 3 دانت بھی ٹوٹ گئے، اور اس وقت چارپائی پر لیٹے لیٹے آپ سے بات کر رہا ہوں۔
جب وہ ہم سے فون پر بات کر رہے تھے تو اس وقت بھی ان کے گھر پڑوسی عیادت کے لیے آرہے تھے۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ 'یہ حادثہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں پیش آیا تھا جس کے بعد ہم سرکاری ہسپتال پہنچے اور کچھ دیر کے آرام اور بنیادی طبّی امداد لینے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوگئے‘۔
شریف زادہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کے پختہ ارادے کو داد دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ، 'چوٹیں لگنے کے باوجود ہمیں اپنے فیصلے پر بالکل بھی پچھتاوا نہیں ہوا تھا۔ ہم نے کراچی سے نکلتے وقت یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم جان کی بازی لگا کر بھی اپنے گاؤں ضرور پہنچیں گے۔ پھر جب ہم اس طویل سفر کے کٹھن مراحل پار کرتے کرتے جمعہ کی رات 11 بجے گاؤں پہنچے تو وہاں جلد سونے کی عادت کے باوجود گاؤں والے ہماری راہ تکتے پائے گئے'۔
میں نے شریف زادہ سے پوچھا کہ کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے آج کل زیادہ تر ہوٹل بند پڑے ہیں، تو سفر کے دوران کھانے پینے میں تو ضرور دشواری پیش آئی ہوگی؟ تو اس حوالے سے شریف زادہ کہتے ہیں کہ، 'ہوٹلوں کی بندش کی وجہ سے راستے میں کھانے پینے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں مگر ہم نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں بنایا۔ جیسی تیسی پیٹ پوجا کے ساتھ ہم آگے بڑھتے گئے'۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ، ’پورے راستے پولیس، رینجرز اور پاک فوج کے جوانوں کا رویہ بہت ہی متاثرکن تھا اور انہوں نے ہمارے ساتھ ہر جگہ بھرپور تعاون کیا جس پر ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہے۔ راستے میں 3 سے 4 مقامات پر پیشانی پر مشین رکھ کر ہمیں چیک ضرور کیا گیا لیکن کسی بھی جگہ پر تنگ نہیں کیا گیا۔ ہم نے کہیں بھی جھوٹ کا سہارا نہیں اور جب جب اس سفر کے بارے میں پوچھا گیا تب تب ہم نے سچ ہی بتایا کہ ہم کراچی سے آئے ہیں اور اپنے گاؤں جانا چاہتے ہے'۔
کراچی ٹول پلازہ کراس کرتے وقت ہمیں بتایا گیا کہ رکشے سے 2 افراد اتر جائیں اور ٹول پلازہ پیدل کراس کرلیں، ڈرائیور کے ساتھ صرف ایک ہی شخص بیٹھا رہے۔ کراچی سے نکلتے وقت ہم نے 2 اضافی ٹائر رکھ لیے تھے اور 14 کلو گیس بھی بھروا لی تھی اور پھر راستے میں مزید 26 کلو گیس بھروانی پڑی۔ پورے سفر میں 40 کلو گیس استعمال ہوئی‘۔ انہوں نے گیس کے داموں میں فرق بتاتے ہوئے کہا کہ ’کراچی سے فی کلو گیس 130 روپے ملی تھی جبکہ راستے میں یہ قیمت 170 روپے تک پہنچ گئی تھی۔
رکشہ بھی تو نٹ بولٹ اور ویلڈنگ سے جڑی مشین کا نام ہے، تو سفر کے دوران اس نے کبھی تو مرمت کا تقاضا کیا ہوگا؟ اس سوال پر شریف نے بتایا کہ 'راستے میں ایک جگہ ایک ٹائر پنکچر ہوگیا تھا لیکن احتیاطاً ہم نے جو 2 اضافی ٹائر رکھے تھے اس کی وجہ سے زیادہ پریشانی نہیں ہوئی‘۔
اتنا طویل سفر، 3 پہیوں والی گاڑی اور پھر اس پر 4 لوگ سوار! رکشہ چلانے والے کی تو حالت خراب ہوگئی ہوگی؟ یہ بات سن کر شریف زادہ کہتے ہیں کہ 'ہم چونکہ چاروں کراچی میں رکشہ چلاتے تھے اس لیے باری باری رکشہ چلاتے رہے۔ اس کے 2 بڑے فائدے ہوئے۔ پہلا یہ کہ کسی کو بھی زیادہ تھکاوٹ نہیں ہوئی اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے کہیں بھی قیام نہیں کیا اور مسلسل سفر جاری رکھا‘۔
ہم نے چونکہ خود بھی کراچی سے پختونخوا کئی روڈ ٹرپ کیے ہیں اور اس پورے سفر میں ہمارا سب سے اہم ساتھی گوگل میپ ہوتا تھا، تو میں نے شریف سے بھی پوچھ لیا کہ راستے یاد تھے یا پھر گوگل میپ کی مدد لی جس پر شریف نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’راستوں کا تو علم ہم میں سے کسی کو بھی نہیں تھا اور نہ گوگل میپ کسی کو استعمال کرنا آتا تھا۔ ہم تو بس نکل گئے، پھر ہماری کچھ رہنمائی سائن بورڈز نے کی اور کچھ مدد گاؤں کے ایک مقامی نے کی جو کوچ ڈرائیور ہے اور ایک شہر سے دوسرے شہر بسوں میں سفر کرنا اس کا معمول ہے‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ہم چاروں دوست رمضان کا مہینہ گاؤں میں ہی گزاریں گے اور جب کاروبار دوبارہ کھل جائے گا تو رکشے کے ذریعے ہی کراچی واپس چلے جائیں گے۔
20 سال سے کراچی میں رکشہ چلانے والے 38 سالہ بحرین اللہ اس سفر میں شریف زادہ کے ساتھ تھے اور جب ہم شریف زادہ سے بات کررہے تھے تو بحرین بھی وہیں موجود تھے۔ ان سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ’کراچی سے سکھر تک تو سب کچھ ٹھیک رہا لیکن اس کے بعد ایک غلط موڑ لے لیا جس کے نتیجے میں ہم شاید کوئی 300 کلومیٹر اپنے اصل راستے کی مخالف سمت میں بڑھتے چلے گئے۔ ہم نے راستے میں صرف پنجاب میں رانی پوری کے مقام پر پیٹ بھر کے کھانا کھایا تھا، جہاں ہمارے گاؤں کے ایک دوست کا ہوٹل ہے۔ وہاں بھی کھانا تو نہ مل سکا البتہ اس نے چائے کے ساتھ ہماری بھرپور تواضع ضرور کی۔ پھر جب جمعہ کی صبح ہم پشاور پہنچے تو وہاں ہمارے گاؤں کی مسجد میں امامت کرنے والے حضرت نے ہمارے لیے ناشتہ کا بندوبست کیا'۔
رکشے میں سوار ہوکر اپنے گاؤں پہنچنے والوں میں 29 سالہ راحیداللہ بھی شامل ہیں جو گزشتہ 7 برسوں سے کراچی میں رکشہ چلا رہے ہیں۔ وہ اپنے تجربات کچھ اس طرح بتاتے ہیں کہ '75 گھنٹے کے اس طویل سفر میں تھکاوٹ اور بے آرامی کا احساس طبیعت پر حاوی تو رہا لیکن ہم سب چونکہ کراچی میں بھی روزانہ 12 گھنٹے رکشہ چلاتے تھے اس لیے اس تھکن نے ہمیں نڈھال نہیں کیا۔ اس پورے سفر میں زیادہ پریشانی یہ رہی کہ پچھلی سیٹ پر 3 افراد بیٹھتے تھے اس لیے بے آرامی اور نیند کی کمی کا سامنا کرنا پڑا‘۔
چاروں دوستوں کے گاؤں پہنچنے کے بعد ان کی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ راحیداللہ جب ہم سے بات کر رہے تھے اس وقت بھی وہ ایک دعوت میں موجود تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'یہ دعوتیں اس لیے نہیں کی جارہی کہ ہم رکشے میں کراچی سے اپنے گاؤں پہنچے ہیں بلکہ یہ اس خطے کی روایت ہے کہ جب بھی کوئی باہر سے آتا ہے تو گاؤں میں اس کے استقبال کے طور پر اس کی دعوت کی جاتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'کراچی سے نکلنے اور گاؤں کے قریب پہنچنے تک ہمارے گاؤں کے دوست و احباب ہماری خیر و عافیت کے لیے دعائیں مانگتے رہے۔ جمعہ کی رات جب ہم گھر پہنچ گئے تو ہفتے کی صبح والدہ نے میری بخریت گھر آمد پر ایک بکری بطور صدقہ ذبح کروائی اور اس کا گوشت لوگوں میں تقسیم کردیا۔ ہمارے پاس صرف ایک یہی بکری تھی جسے ہم نے دودھ کے حصول کے لیے پالا ہوا تھا۔ یقین جانیے یہ دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور ماں کی محبت اور شفقت کا اندازہ ہوا کہ غربت و افلاس اور بیٹے کے بے روزگار ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنی واحد بکری ذبح کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی'۔
وہ اپنے سفر کے آخری مراحل کی دشواریوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 'چونکہ ہمارا آبائی علاقہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور سفر کے دوران موسلادھار بارش کے باعث راستے کیچڑ زدہ ہوگئے تھے اس لیے رکشے میں 4 افراد کو بلندی پر لے جانے میں مشکل پیش آرہی تھی سو ہم جگہ جگہ رکشے سے اتر کر دھکا لگایا کرتے تھے'۔
ان کے ساتھ کراچی سے اپنے گاؤں لوٹنے والے 36 سالہ خورشید نے بتایا کہ 'میں بہت غریب ہوں، میرے والدیں کا انتقال ہوچکا ہے، ہمارے ساتھی راحیداللہ کی والدہ نے تو صدقے کے طور پر بکری ذبح کی ہے لیکن میری اتنی استطاعت نہیں ہے۔ البتہ گھر پہنچنے پر سب بہت خوش ہیں'۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ 'باقی ساتھیوں نے ابھی حساب نہیں کیا ہے لیکن میرے کراچی سے گھر پہنچنے تک 4 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ راستے میں خوش قسمتی سے ہمارے ساتھ صرف ایک ہی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا اور اس کے علاوہ ہمارا سفر بہت زبردست رہا اور راستہ میں رینجرز، پولیس اور فوجی اہلکاروں کا تعاون مثالی تھا جس پر ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہے'۔
وفاق اور صوبائی حکومتوں نے کورونا وائرس کے پیش نظر احتیاطی اقدامات کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے افراد کے لیے امدادی پیکجز کا اعلان کیا ہے۔
یقیناً ملک میں وائرس سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور سرکار ان کا ڈیٹا جمع کرنے میں مصروف بھی ہے۔ ہم اس تحریر کے توسط سے وفاقی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ کم از کم ضلع شانگلہ یونین کونسل چوگا کہ ان 4 نوجوانوں کی مدد ضرور کی جائے جو بے روزگاری کی وجہ سے بذریعہ رکشہ کراچی سے اپنے گاؤں پہنچے ہیں، کیونکہ ان کے خدشات بڑھتے جارہے تھے اور ان کو یہ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ آنے والے مزید دن ان کے لیے مشکل بھرے ہوں گے۔ ۔
امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔