افغان حکومت کی اعلان کردہ ٹیم سے مذاکرات نہیں کریں گے، طالبان
طالبان نے افغان حکومت کی ٹیم سے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا جس سے امن معاہدے کے تحت امریکا کے اگلے اقدامات کو ممکنہ طو پر دھچکا لگے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ 'گروپ حکومت کی اس ٹیم سے مذاکرات نہیں کرے گا کیونکہ اس میں تمام افغان دھڑوں کی نمائندگی نہیں ہے۔'
افغان حکومت نے جمعرات کو اس ٹیم کا اعلان کیا تھا جس کی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے تعریف کی تھی۔
امریکا نے طالبان کے ساتھ امن معاہدے پر 29 فروری کو دستخط کیے تھے تاہم افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی طرف پیشرفت میں افغان سیاستدانوں کے درمیان عداوت اور قیدیوں کی رہائی اور بات چیت سے قبل ممکنہ سیز فائر کی پیشگی شرائط کے کے معاملات پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان اختلافات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: افغان امن معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا عمل جلد شروع کیا جائے، زلمے خلیل زاد
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغان حکومت نے جس ٹیم کا اعلان کیا وہ امریکا کے ساتھ اس کے معاہدے کی 'خلاف ورزی' ہے کیونکہ تمام فریقین اس ٹیم پر رضامند نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'دیرپا اور حقیقی امن کے حصول کے لیے اس ٹیم پر تمام موثر افغان فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے تاکہ وہ تمام فریقین کی نمائندگی کر سکے۔'
افغان وزارت امن امور کی ترجمان ناجیہ انوری کا کہنا تھا کہ 'یہ ٹیم افغان معاشرے کے مختلف نمائندوں سے طویل مشاورت کے بعد تشکیل دی گئی ہے۔'
افغان صدر اشرف غنی کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے اب تک اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ کیا وہ اس ٹیم کی حمایت کریں گے۔
سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ عبداللہ عبداللہ کا اس حوالے سے فیصلہ بہت اہمیت رکھے گا کیونکہ ملک کے شمال اور مغربی حصوں میں وہ کافی بااثر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: تمام فریقین معاہدے کی پاسداری کریں گے، اشرف غنی
عبداللہ عبداللہ کے ترجمان اور امریکی سفارت خانہ، طالبان کے تازہ بیان پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھا۔
اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں گزشتہ سال ستمبر میں صدارتی انتخاب کے بعد سے ملک کا حقیقی قائد ہونے کا دعویٰ کرتے آئے ہیں۔
امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کو پیر کے روز دورہ کابل میں دونوں رہنماؤں کے درمیان باہمی حکومت کے لیے ثالثی کی کوشش میں ناکامی ہوئی تھی جس کے بعد انہوں نے افغانستان کی امداد میں ایک ارب ڈالر کمی کا اعلان کیا تھا۔