انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی درست اعدادوشمار تو نہیں دے سکتے مگر 2019 کے آخری سہ ماہی کے دوران ہسپتالوں میں ایسے کیسز کی معمول سے کہیں زیادہ تھی جن میں مریضوں میں نمونیا اور فلو جیسی علامات کا سامنا ہوا اور کچھ کی ہلاکت بھی ہوگئی۔
اب وہ ہسپتالوں کے ریکارڈ پر نظرثانی اور کیسز کی دیگر تفصیلات جیسے گھروں میں اموات کی تعداد اکھٹی کررہے ہیں، تاکہ یہ سمجھنے میں مدد مل سکے کہ کیا اٹلی میں اس وائرس کی 2019 کے آخر میں پھیل چکی تھی۔
پروفیسر نے بتایا 'ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا یہ وائرس 2019 کے آخر میں اٹلی میں پہنچ کیا چکا تھا اور اگر ہاں، تو یہ اتنے عرصے تک پکڑ میں کیوں نہیں آسکا'۔
خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس نئے کورونا وائرس کی وبا دسمبر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔
اطالوی پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایک بار ان کی تحقیق مکمل ہوجائے، پھر ممکنہ طور پر مقامی طبی انتظامیہ مشتبہ علامات سے ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کا جائزہ لینے پر غور کرے گی۔
دوسری جانب دیگر ماہرین نے اس خیال پر شک ظاہر کیا ہے کہ یہ نیا وائرس یورپ میں 2019 کے اختتام سے پہلے ہی گردش کررہا تھا۔
برطانیہ کی ایسٹ اینجلا یونیورسٹی کے پروفیسر پال ہنٹر نے کہا 'میرے خیال میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ یہ وائرس یورپ میں جنوری سے قبل موجود تھا'۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اٹلی کے سائسندان مثبت نتائج پیش نہیں کرتے، اس وقت تک اس خیال کو ٹھوس نہیں مانا جاسکتا۔
اٹلی میں وبا اٹلی میں اس بیماری کا پہلا کیس 21 فروری کو رپورٹ ہوا تھا مگر کچھ سائنسدانوں کا مننا ہے کہ یہ وائرس کم از کم ایک ماہ پہلے ہی ملک میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا۔
میلا کے ساکو ہاسپٹل کے وبائی امراض یونٹ کے سربراہ ماسیمو گیلی کا کہنا ہے 'یہ وائرس جنوری کی دوسری ششماہی میں یہاں موجود تھا'۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں وائرس جنوری سے قبل اٹلی میں موجود تھا۔
میلان کے ماریو نیگری انسٹیٹوٹ فار فارماکولوجیکل ریسرچ کے ڈائریکٹر گیوسیپ ریمیوزی کے مطابق لمبارڈی کے کچھ ڈکاٹروں نے گزشتہ سال کے آخر میں نمونیا کے کیسز کی غیرمعمولی تعداد کو رپورٹ کیا تھا جو اب مشتبہ نظر آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نمونیا کے ایسے متعدد کیسز میں دونوں پھیپھڑے متاثر پائے گئے تھے، جس کے ساتھ تیز بخار، کھانسی، تھکاوٹ اور سانس لینے میں مشکلات جیسی علامات بھی دیکھی گئیں۔
انہوں نے کہا 'ان میں سے کسی کیس کو کووڈ 19 کا حصہ نہیں بنایا گیا کیونکہ اس وقت اس بیماری کی موجودگی کے شواہد ہی موجود نہیں تھے'۔