ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے وائرلوجسٹ بنجامن نیومین نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ فلو وائرس کا جینوم متعدد حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے، ان تمام کوڈز کا ایک جین ہوتا ہے، جب 2 فلو وائرسز کسی ایک خلیے میں ہوتے ہیں، تو وہ کچھ چیزوں کا تبادلہ کرلیتے ہیں، جس سے فوری طور پر ایک نیا امتزاج بنتا ہے، اسی طرح سوائن فلو بھی بنا۔
اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے خلااف 40 سے زائد ویکسینز کی تیاری پر کام ہورہا ہے اور امریکا میں ایک کمپنی موڈرینا کی جانب سے ایک ویکسین کی انسانوں پر آزمائش بھی شروع کردی گئی ہے، تاہم کسی بھی ویکسین کی اگلے سال مارچ سے قبل دستیابی کا امکان بہت کم ہے۔
مگر جب ویکسین تیار ہوجائے گی تو ممکنہ طور پر ایک بار اس کا استعمال ہی کئی برس تک بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ثابت ہوگا۔
اب تک اس نئے نوول کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اس میں کچھ زیادہ تبدیلیاں دیکھنے میں نہیں آئیں، مگر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں ایسا مستقبل قریب میں نہ ہو۔
امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشز ڈیزیز کے ڈئریکٹر انتھونی فیوسی نے کہا کہ ہم نے اب تک وائرس میں کسی قسم کی تبدیلیوں کو نہیں دیکھا، مگر ہم اس پر باریک بینی سے نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو بدل لے اور اس کے پھیلائو کا طریقہ بھی بدل جائے۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں اب تک اس وائرس کے نتیجے میں 5 لاکھ سے زائد افراد بیمار جبکہ 23 ہزار سے زیادہ ہلاک ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں اس کے نتیجے میں 1198 افراد بیمار، 9 جاں بحق جبکہ 21 صحت یاب ہوچکے ہیں۔