اس کے علاوہ یہ بھی رہنمائی کی گئی کہ لوگوں سے ملتے وقت کم سے کم بھی ایک میٹر کا فاصلہ رکھیں اور اپنے موبائل فون میں کورونا ہیلپ لائن نمبر، محکمہ صحت کے مختص ترجمان کا نمبر، معالج کا نمبر اور اس قریبی شخص کا نمبر رکھیں جس سے ہنگامی صورتحال میں رابطہ کیا جاسکے۔
ساتھ ہی اپنا خیال رکھیں کٹیگری میں جن باتوں کو گریز کرنے کا کہا گیا ہے ان میں آنکھ اور ناک یا چہرے کے دوسرے کسی حصے کو چھونے سے گریز کریں، اجتماعات اور مجمع میں لوگوں کے قریب نہ جائیں اور ان نمبرز کو محفوظ رکھنا نہ بھولیں۔
کورونا سے متعلق جن آگہی کے بارے میں ہدایات پر عمل کرنے کا کہا گیا ہے ان میں کورونا وائرس کی صورت میں پھیلنے والی نئی بیماری سے متعلق لوگوں تک معلومات پہنچانا شامل ہے۔
اس کے علاوہ ان لوگوں کو موضوع بحث بنائیں جو کورونا سے متاثر ہوئے ہیں، اس کے ساتھ انہیں بھی اسی طرح موضوع بحث بنائیں جو ممکنہ طور پر وائرس یا وبا سے متعلق مفروضات کا شکار ہوسکتے ہیں۔
مذکورہ ہدایات میں کہا گیا کہ ان لوگوں کے حوالے سے بات کریں جو کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں یا پھر جانبر ہوئے ہیں۔
سی ای جے نے اپنی ہدایات میں کورونا وائرس کی نسبت کسی قوم یا خاص مقام کی طرف کرنے سے گریز کرنے کا کہا ہے، ساتھ ہی بتایا گیا کہ اس بیماری کو کووڈ 19 کا نام اس لیے دیا گیا تاکہ اسے کسی قوم، قبیلے یا مقام سے نہ جوڑا جائے۔
ساتھ ہی اس وائرس کے کووڈ 19 کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا گیا کہ اس میں co سے مراد کورونا، vi سے مراد وائرس، d سے مراد ڈیزیس (بیماری) ہے جبکہ 19 کا ہندسہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ بیماری 2019 میں سامنے آئی۔
کورونا وائرس سے متعلق یہ جن باتوں میں احتیاط برتنے کو کہا گیا ہے وہ شبہ کی بنیاد پر کسی کیس کو موضوع بحث بنانا ہے، ساتھ ہی کہا گیا کہ اس بیماری کو کسی جرم یا غیر انسانی اقدام کے طور پر پیش کرنے سے گریز کریں۔
رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی رہنمائی کے لیے بتایا گیا ہے کہ بیماری کے علاج کی دریافت کو مرکزی موضوع نہ بنائیں، اس طرح متاثرہ افراد مایوس ہوسکتے ہیں۔
سی ای جے نے مصدقہ رپورٹنگ سے متعلق یہ ہدایات جاری کیں کہ لوگوں کو سائنسی اعداد و شمار اور حکام کی طرف سے آنے والی تجاویز کی روشنی میں کورونا کی سنگینی کے بارے میں بتائیں، اس کے علاوہ کسی بھی تحقیقی رپورٹ کا حوالہ دیتے وقت احتیاط برتیں اور اس بات کو دیکھ لیں کہ یہ رپورٹ معتبر علمی اور تحقیقی اداروں کی توثیق سے شائع ہوئی یا نہیں۔
مزید برآں حکام یا صحت کی سہولیات سے متعلق مصدقہ اطلاعات آگے پہنچانے پر زور دیا گیا۔
تاہم جن چیزوں سے احتیاط کرنے کو کہا گیا ہے اس میں غیرمصدقہ اطلاعات کو دہرانے اور پھیلانے سے گریز کرنے، غیر معتبر اداروں اور افواہ ساز حلقوں کی جاری کردہ معلومات کو بطور حوالہ پیش کرنا شامل ہے۔
علاوہ ازیں محکمہ صحت کے ذمہ داران اور تشخیصی سہولت کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ معلومات پھیلانے سے گریز کرنے پر بھی زور دیا گیا۔
مذکورہ ہدایات میں کہا گیا کہ کورونا سے متعلق بات کرتے وقت مثبت انداز کو اختیار کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ کورونا سے بچاؤ کے لیے ہدایات کتنی ضروری ہیں جبکہ ایسی تصاویر کا بھی استعمال کیا جائے جو کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر کو آسانی سے بیان کرسکتی ہوں۔
تاہم منفی طرز عمل اختیار کرنے اور کسی کو دھمکی دینے سے گریز کرنے کو کہا گیا ہے ساتھ ہی صحافیوں کو دوا اور ویکسین کے حصول کے لیے زور دینے سے گریز کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔
مزید یہ کہ رپورٹنگ پر موجود افراد زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسی تصاویر شیئر نہ کریں جو غلط رہنمائی یا غلط فہمی کا باعث بن سکتی ہوں۔
سی ای جے کی جانب سے صحافیوں کو کہا گیا کہ وہ طبی عملے اور زیر علاج افراد کا احترام کرتے ہوئے مریض اور اس کے تیمار داروں کی راز داری کا خیال کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: میڈیا عوام میں خوف کی فضا ختم کرے، پیمرا
اس کے علاوہ اپنے رویے اور روابط کے ذریعے لوگوں میں یہ احساس اجاگر کرنے کی تجویز دی گئی ہے جس سے طبی عملی کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔
ساتھ ہی رپورٹرز کو اطلاعات و معلومات کے لیے ہسپتال یا محکمہ صحت کی طرف سے متعین کردہ ذمہ دار سے رابطہ کرنے کا کہا گیا ہے۔
صحافیوں پر زور دیا گیا کہ مریض اور ان کے تیمار داروں کی رضا مندی کے بغیر کوئی خبر نشر کرنے سے اجتناب کریں اور طبی عملے کی اہم سرگرمیوں کو بے بنیاد خبروں سے متاثر نہ کریں۔
خیال رہے کہ دنیا بھر میں ہزاروں اموات کا باعث بننے والا مہلک کورونا وائرس پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور ایک ماہ کے دوران یہاں کیسز کی تعداد 1100 سے تجاوز کرگئی۔
26 فروری 2020 کو پاکستان میں وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا تھا اور آج ایک ماہ مکمل ہونے تک ملک میں کورونا وائرس کے مزید 40 نئے کیسز سامنے آنے سے تعداد 1118 ہوگئی ہے۔
اس عالمی وبا نے دنیا بھر میں تباہی مچا دی ہے اور 21 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 4 لاکھ 74 ہزار سے زائد متاثر ہوچکے ہیں۔