عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ اپنے امور انجام دیتی رہے گی، سپریم کورٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدلیہ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے افعال اور فرائض کی انجام دہی جاری رکھے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ حکومت اور سپریم کورٹ کے نافذ کردہ احتیاطی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر عوام کے لیے عدلیہ کی دستیابی یقینی بنائی جائے گی۔
قبل ازیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کے سامنے پیش ہوئے جو عدالت کے کمرہ نمبر ایک میں ایک بینچ کی سربراہی کررہے تھے اور ان سے درخواست کی کہ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عدالتی امور کے التوا پر غور کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: اشیائے خورونوش کی برآمد روکنے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر
عدالتی کارروائی کے آغاز میں ایس سی بی اے کے صدر روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس پر زور دیا کہ چونکہ زیادہ تر سائل اور وکلا شہر کے باہر سے آتے ہیں اس لیے عدالت جاری نہ رکھیں۔
جس پر چیف جسٹس نے بار کے نمائندوں کو کہا کہ عوام کو آگاہ کردیں کہ اگر کوئی وکیل سماعت میں کیس کی پیروی کے لیے نہ پیش ہوا تو عدالت استغاثہ کی غیر موجودگی میں کوئی مقدمہ خارج نہیں کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدلیہ جیسا سب سے اہم اور نمایاں ادارہ بند نہیں کیا جاسکتا اور نشاندہی کی کہ یورپ میں کووڈ19 کی بدترین صورتحال کے باجود کوئی عدالت بند نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس نے اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی بینچز عدالتوں میں معاملات کی سماعت کرنے اور مناسب احکامات جاری کرنے کے لیے موجود رہیں گی۔
مزید پڑھیں: کورونا وائرس: پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت میں مزید کیسز، ملک میں 990 متاثرین ہوگئے
بعدازاں ایک باضابطہ بیان میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ حاضری کم ہونے کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کی صرف 3 بینچز نے کام کیا، مختلف وکلا بینچز کے سامنے پیش ہوئے، جن کے مقدمات کی سماعت کی گئی اور احکامات جاری کیے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ عدالت میں تمام احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں جس میں داخلی گیٹ پر وکلا اور عدالتی عملے کی اسکریننگ اور عمارتوں میں مختلف مقامات پر واش بیسن لگانے کے ساتھ سینیٹائزرز بھی رکھ گئے ہیں۔
اس کے علاوہ غیر ضروی عملے، 50 سال کی عمر سے زائد کے افراد اور خواتین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے عوام کو ہدایت کی گئی کہ جب تک اشد ضروری نہ ہو وہ عدالت آنے سے پرہیز کریں کیوں کہ ان کے وکیل عدالتوں میں آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: علما کو لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، صدر مملکت
اس ضمن میں پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین عابد ساقی اور ایس سی بی اے کے صدر نے چیف جسٹس پاکستان اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز کی جانب سے مقدمات میں کمی کر کے صرف ضروری نوعیت کے کیسز مقرر کرنے کے اقدام کو سراہا۔
ان دونوں نمائندوں نے سی جے پی اور دیگر چیف جسٹسز سے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات کے اندراج کے لیے لیمیٹیشن ایکٹ کے تحت حدود کی ضرورت کو چھوڑنے کی بھی درخواست کی۔
قبل ازیں نیشنل جوڈیشل (پالیسی میکنگ) کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے عدالتوں کو بند نہ کرنے کے بجائے ہر سطح پر کھلا رکھنے تاہم عدالتی کام میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ساتھ ہی یہ طے گیا گیا تھا کہ صحت اور صفائی کے اصولوں کو یقینی بنایا جائے گا اور انہیں اپنایا جائے گا۔
اس کے علاوہ ضلعی عدالتیں بھی فوری طور پر معاملات کی سماعت کرکے کام کو کم کرنے اور عام عوام کے داخلے کو کم کرنے سمیت عدالتیں احاطے میں داخل ہونے والے تمام افراد کے اسکریننگ ٹیسٹ کو یقینی بنانے کا بھی کہا گیا تھا۔
اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ کسی بھی فریق کے خلاف عدالتوں میں طے شدہ بغیر استغاثہ یا سابق حکم وغیرہ جیسا منفی حکم نہیں جاری کیا جائے گا۔
این کے پی ایم سی کے اجلاس میں یہ بھی ہدایت کی گئی تھی کہ تمام قیدیوں کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات کے حق سے منع کیے بغیر ان کی کورونا وائرس/ انفیکشن کے خطرے سے حفاظت یقینی بنائی جائے۔
مزید یہ بھی کہا گیا تھا کہ جیل انتظامیہ حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائے گی اور اس طرح کی ملاقاتوں کے لیے طریقہ کار طے کرے گی۔