پاکستان

سارک کے تحت کورونا فنڈ کا طریقہ کار تاحال توجہ طلب ہے، پاکستان

جب تک فنڈ کی تفصیلات کو حتمی شکل نہیں دی جاتی ہے، وعدوں کے باوجود ان پر عمل ہونے کا امکان نہیں، سفارتکار

پاکستان نے جنوبی ایشیائی ایسوسی ایشن برائے علاقائی تعاون(سارک) کے تحت کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈ کے استعمال اور طریقہ کار سے متعلق مزید وضاحت کا تقاضہ کردیا۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس ایمرجنسی فنڈ کی جانب سے 15 مارچ کو سارک سربراہان کے اجلاس میں بھارتی وزیراعطم نریندر مودی نے وائرس کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کے لیے فنڈز میں ایک کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سارک ممالک کی کووڈ-19 پر ویڈیو کانفرنس، ظفر مرزا کا خطاب

مذکورہ فنڈ کا مقصد اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے خطے میں ممالک کی مدد کرنا ہے، تاہم فنڈ کے متعلق دیگر تفصیلات نہیں بتائی گئیںجس میں فنڈ کی ایڈمنسٹریشن سمیت اس کا طریقہ استعمال بھی ہے۔

پاکستان کے سوا تمام علاقائی بلاک کے ممالک نے اس فنڈ کے لیے مالی تعاون کا اعلانات کرچکے ہیں جو مجموعی طور پر ایک کروڑ 88 لاکھ ڈالر ہیں، جس میں بھارت کے علاوہ سری لنکا نے 50 لاکھ ڈالر، بنلگہ دیش نے 15 لاکھ ڈالر، نیپال اور افغانستان نے 10 لاکھ ڈالر، مالدیپ نے 2 لاکھ ڈالر اور بھوٹان نے ایک لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

اس حوالے سے ایک سفارتکار نے بتایا کہ پاکستان نے ویڈیو لنک کے ذریعے سارک کانفرنس میں حصہ لیا تھا اور توقع کی جاری تھی کہ اسلام آباد بھی فنڈز کی ادائیگی سے متعلق کوئی وعدہ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس 150 سے زائد ممالک تک پھیل گیا، ہلاکتیں 6 ہزار تک جا پہنچیں

انہوں نے بتایا کہ جب تک فنڈ کی تفصیلات کو حتمی شکل نہیں دی جاتی ہے، یہ خدشہ ہے کہ رکن ممالک کے وعدوں پر عمل ہونے کا امکان نہیں۔

فنڈ کے بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بنگلہ دیشی ہم منصب اے کے عبدالمومن سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران تبادلہ خیال بھی ہوا۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’وسائل کی تقسیم کی ضرورت پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سارک کورونا وائرس فنڈ سیکریٹری جنرل سارک کے تحت رکھنا چاہیے اور جلد از جلد مشاورت کے ذریعے اس کے استعمال کے طریقوں کو حتمی شکل دی جانی چاہیے‘۔

علاوہ ازیں شاہ محمود قریشی نے ممبر ممالک اور ترقیاتی شراکت داروں کے مابین تعاون بڑھانے کے لیے سارک وزرائے صحت کی کانفرنس کی میزبانی کے لیے پاکستان کی تیاری کا اعادہ کیا۔

اس موقع پر بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ نے بھی وزرائے صحت ویڈیو کانفرنس میں شرکت کے لیے اپنی حکومت کی تیاری کا اظہار کیا۔

مزیدپڑھیں: کورونا وائرس: گھروں تک محدود اٹلی کے عوام کے بلند حوصلے کو دنیا کس طرح دیکھتی ہے؟

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں میں شاہ محمود قریشی نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کے اپنے ہم منصبوں سے بات کرچکے ہیں جبکہ سارک کے رکن ممالک افغانستان اور بھارت میں فون نہیں کیا۔

دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے فون پر بتایا کہ وزیر خارجہ کی فون کالز صرف سارک رکن ممالک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ انہوں نے دیگر ممالک سے بھی رابطہ کرکے وائرس کے خلاف موثراقدامات کے تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیائی ہم منصبوں کے ساتھ گفتگو میں سارک ممالک کے وزرائے صحت کی ویڈیو کانفرنس کے بارے میں پاکستانی تجویز پر تبادلہ خیال کیا جبکہ اس خیال کی اہم حمایت بھی حاصل ہے۔

خیال رہے کہ شاہ محمود قریشی نے ترکی، اسپین اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے بھی بات کی اور اسلام آباد میں اٹلی کے سفارتخانے کا دورہ بھی کیا۔

اپنی تمام گفتگو میں انہوں نے بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں جاری لاک ڈاؤن اور مواصلات کی بندش کے بارے میں بات کی جس کے باعث کشمیریوں کو اس عالمی وبا سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے، ساتھ ہی انہوں نے وائرس سے متاثرہ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں جیسے موضوعات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندیوں کے باعث کورونا سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئیں، ایران

اسپین کے وزیر خارجہ ارانچا گونزالیز لیا نے کہا کہ 23 مارچ کو منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ایران کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں سے نجات کے معاملے کو ایک مناسب فورم پر اٹھایا جاسکتا ہے۔

دریں اثنا فرانس کے وزیر خارجہ ژائی یوود لی ریان نے شاہ محمود قریشی سے ایران کے خلاف پابندیاں اٹھانے اور ترقی پذیر ممالک کو قرضوں سے نجات فراہم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ جی ایم 20 کے اجلاس میں ایران پر عائد پابندیاں اٹھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ ہی ترقی پذیر ممالک کو قرضوں سے نجات فراہم کرنے کے معاملے کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ اٹھاتے۔

علاوہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ترکی کے وزیر خارجہ میولود چاوش اولو سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی میں پھنسے پاکستانی مسافروں کے بارے میں بات کی۔

مزید برآں وزیر خارجہ نے اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آباد میں اٹلی کے سفارتخانے کا دورہ کیا اور کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اس ملک میں ہونے والی اموات پر تعزیتی کتاب پر دستخط کیے۔

واضح رہے کہ اٹلی یورپ کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور اب تک وہاں 6 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔


یہ خبر 25 مارچ 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

'بھارت نسل پرستانہ برتری کے خطرناک نظریے پر عمل پیرا ہے'

کورونا وائرس: بلوچستان میں پہلی ہلاکت، ملک میں 878 افراد متاثر

ٹرمپ کا کورونا سے متاثرہ ریاستوں میں نیشنل گارڈز کی تعیناتی کا حکم