واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے سائنسدان اس وقت حکومتی منظوری کے منتظر ہیں تاکہ وہ اس بیماری کو شکست دینے والے مریضوں کے بلڈ پلازما کو انسانوں پر آزمائش کرکے دیکھیں کہ یہ طریقہ کار مدافعتی نظام کو بڑھانے میں کس حد تک مدد دیتا ہے۔
اس طریقہ کار کو 1918 کے اسپینش فلو کی وبا کے دوران ویکسین یا اینٹی وائرل ادویات کی دستیابی سے پہلے استعمال کیا گیا تھا۔
اس طریقہ کار میں اس حقیقت کو مدنظر رکھا جاتا ہے کہ صحت مند مریضوں کے خون میں ایسے طاقتور اینٹی باڈیز ہوتے ہیں جو وائرس کو لڑنے کی تربیت رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ اس وقت نئے نوول کورونا وائرس کا کوئی علاج موجود نہیں جبکہ ویکسین کی دستیابی اس سال کے آخر یا اگلے سال کی پہلی ششماہی تک ممکن نظر نہیں آتی۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جیفری ہینڈرسن کے مطابق 'حال ہی میں صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون سے حاصل کیے گیے سیرم کا استعمال بہت پرانی سوچ محسوس ہوتی ہے، مگر تاریخی طور پر یہ کارآمد طریقہ ہے'۔
انہوں نے مزید کہا 'اسے استعمال کرکے ہم وائرس انفیکشن جیسے خسرہ، پولیو اور انفلوئنزا کی روک تھام اور علاج میں کامیاب رہے، مگر جب ایک بار ویکسین تیار ہوگئی تو یہ تیکنیک فراموش کردی گئی'۔
ان کا کہنا تھا 'جب تک کووڈ 19 کے حوالے سے مخصوص ادویات اور ویکسین تیار کریں گے، یہ طریقہ کار اس وقت تک زندگیاں بچانے میں مدد دے سکے گا'۔
اسپینش فلو کی عالمی وبا کے دوران ڈاکٹروں کے پاس کوئی علاج موجود نہیں تھا تو انہوں نے صحت یاب ہونے والے مریضوں کا بلڈ سیرم استعمال کرکے متعدد افراد کو صحت یابی میں مدد دی۔
بلڈ پلازما اور سیرم خون کے شفاف سیال پر مشتمل ہوتے ہیں اور دونوں اینٹی باڈیز سے لیس ہوتے ہہیں، مگر پلازما میں چند ایسے دیگر مددگار پروٹینز بھی ہوتے ہیں جو سیرم میں نہیں ہوتے۔
اس طریقہ کار کو 2002 اور 2003 میں سارز کورونا وائرس کی وبا کے علاج کے لیے تجرباتی طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
سارز وائرس کو اس نئے کورونا وائرس سے ملتا جلتا قرار دیا جاتا ہے بلکہ اسے سارز کورونا وائرس 2 کا نام دیا گیا ہے۔