نقطہ نظر

ہوش میں آئیے اور کورونا کے مریضوں سے امتیازی سلوک بند کیجیے

ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے والے کورونا کی زد میں کوئی بھی آسکتا ہے اس لیے امتیازی رویے کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔

کورونا وائرس کی آمد کے ساتھ پوری قوم گھبراہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ جہاں ایک طرف ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہم جدید ٹیکنالوجی کے ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں معلومات تک رسائی نہایت سہل بن چکی ہے، وہیں دوسری طرف ہم الیکٹرانک اور میڈیا ذرائع کے دور میں پھنس چکے ہیں جہاں سے ملنے والی پَل پَل کی خبروں کی نشریات و اشاعت سے مکمل طور پر فرار ممکن نہیں۔

اگرچہ چند ذرائع حقیقی خبریں اور تجزیے پیش کررہے ہیں لیکن ہم ایسے کئی خود ساختہ ماہرین کو بھی دیکھتے ہیں جو گمراہ کن تجاویز دے کر عوام میں گھبراہٹ پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔

اس وائرس کے بارے میں ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ مساوات کی حامی بیماری ہے یعنی یہ کسی کو نہیں بخشتی اور کوئی بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے، چاہے آپ کی زندگی کے حالات جیسے بھی ہوں یا پھر آپ کسی بھی سماجی و معاشی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔

ٹی بی کے عالمی دن کے موقعے پر ہمیں کورونا کے موجودہ بحران میں ٹی بی سے حاصل ہونے والے اسباق پر روشنی ڈالنی چاہیے۔ ہم میں وہ لوگ جنہوں نے ٹی بی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا ہے انہوں نے ٹھیک ویسے ہی رجحانات دیکھ رکھے ہوں گے جیسے آج کورونا وائرس کے حوالے سے گردش کر رہے ہیں۔ مثلاً خوف، متعصب رویہ اپنانا، غربا پر الزام تراشیاں کرنا اور غیر متاثرہ اور مراعات یافتہ افراد کا فلسفہ جھاڑنا۔

ایک ایسے دور میں سازشی نظریات گھڑنا، انہیں سچ بتانا اور نصیحت کے طور پر آگے پھیلانا کافی آسان ہوجاتا ہے جب زبردست پیمانے پر معلومات پھیل رہی ہوں جن میں سے بعض غلط بھی ہوتی ہیں۔ پھر ان کی بنیاد ہی جھوٹ، من دھڑک اور اخلاقیات کے عین خلاف باتوں پر ہوتی ہیں۔

پڑھیے: کورونا وائرس کا بحران: جمہوریت نازک ترین دور سے گزرنے لگی

اس کی ایک مثال مریضوں کو امتیازی سلوک کا مستحق ٹھہرانے سے متعلق سوچ ہے جسے لوگ کسی مخصوص مرض سے جوڑنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ان افراد سے امتیازی سلوک روا رکھنے لگتے ہیں جن کا مثبت ٹیسٹ آتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے کو بند کرنا ہوگا اور اس کے برعکس ہمیں اپنے اندر حساسیت کا مادہ پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم مل کر لوگوں کی نجی زندگی کا تحفظ کریں چاہے ان کا ٹیسٹ مثبت آیا ہو یا نہیں اور جو افراد تکلیف سے گزر رہے ہیں ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں۔

ایک سے دوسرے انسان میں تیزی سے منتقل ہونے والے کورونا وائرس کی زد میں کوئی بھی آسکتا ہے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بھی افراد اس کا شکار بن رہے ہیں ان کے ساتھ نفرت آمیز رویہ برتا جا رہا ہے۔ وہ لوگ جو مریضوں سے رابطے میں آتے ہیں ان کے ساتھ بھی امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے اس بیماری کے خلاف لڑائی لڑنے والے طبّی کارکنان کو بھی بخشا نہیں گیا ہے۔

ہمیں اپنی یہ روش کو بدلتے ہوئے کسی بھی سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شخص پر الزام تراشی کے رجحان کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ کورونا نے ہمیں یہ دکھایا ہے کہ اگر بقائے زندگی کی اس جنگ میں ہم نے ایک دوسرے کی مدد نہیں کی تو ہم یہ لڑائی جیت نہیں پائیں گے۔ چنانچہ سماجی دُوری بنائے رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک دوسرے کی مدد بھی کرنے ہوگی۔

سماجی دُوری کے تصور کے بارے میں بھی عوام کو مناسب انداز میں آگاہی نہیں دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص کورونا وائرس کا شکار نہیں ہے اور اس مرض کی علامات سے پاک ہے تو اس کے ساتھ 6 فٹ تک مناسب جسمانی فاصلہ رکھتے ہوئے بھی سماجی ملاپ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

پڑھیے: کورونا وائرس، برطانیہ میں معمولات زندگی کیسے ہیں؟

براہِ مہربانی اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ فی الحال اس وائرس کا کوئی بھی مستند علاج دستیاب نہیں ہے۔ اس وقت دستیاب طبّی طریقوں کی بنیاد پر علاج معالجہ کیا جا رہا ہے، یہ طریقے تجرباتی ہیں یا پھر اس وقت طبّی ماہرین کے زیرِ مشاہدہ ہیں اور ان کے سائیڈ افیکٹس ابھی منکشف ہونا باقی ہیں۔

کورونا وائرس کے کم اور معتدل شدت والے کیسوں کے لیے قرنطینہ کا آپشن ٹھیک ہے کیونکہ اس طرح عمر رسیدہ اور/یا شدید بیمار افراد کی صحت مرکز تک رسائی سہل ہوجائے گی۔

زیادہ تر پاکستانیوں نے ٹی بی کے بارے میں تو سنا ہی ہوگا جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والی وبائی بیماری ہے۔ ٹی بی کے خلاف جنگ میں ہم نے جو سب سے اہم سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ وبائی امراض حقیقی معنوں میں محنت کش طبقے کو متاثر کرتے ہیں اور یہ کہ مزدوروں، نوجوان ماؤں اور کمزور عمر رسیدہ جیسے پہلے سے زندگی کا بوجھ اٹھانے والے افراد کے اوپر مزید بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ ٹی بی کے شکار افراد پر اگر سانس کی نالی کو متاثر کرنے والا کورونا وائرس بھی حملہ کردے تو ان کو پھر دگنا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔

بحران کی اس گھڑی میں ہمیں سب سے زیادہ یکجہتی کے حقیقی اصولوں کو اپنانے اور مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دراصل اس زمرے میں یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے کہ اس وائرس کے خلاف لڑائی میں ہم سب ساتھ ہیں۔ اور ہم عالمی وبا سے نمٹنے کے لیے اٹھانے جانے والے اقدامات کا مذاق اڑانے کے بجائے اپنی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر غالب آسکتے ہیں۔

پڑھیے: ’میرے لیے 4 مہینے کا قرنطینہ کسی خواب کے پورا ہونے جیسا ہے‘

ہمیں اجتماعی سطح پر اپنے پہلے سے کمزور نظامِ صحت ہر یقین اور اس کی مدد اور حمایت کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ اگر ہم جسمانی دُوری، بلاتاخیر ٹیسٹنگ اور معقول طریقہ علاج پر سائنسی شواہد کی پیروی کریں تو یہ کہنے میں حرج نہیں کہ ہم اس بحران پر قابو پاسکتے ہیں۔

ہمیں ایک دوسرے کو بلاامتیاز تعلیم دینا ہوگی اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم تمام احتیاطی تدابیر و ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ ہمیں غیر مصدقہ معلومات کو پھیلانے سے خود کو روکنا ہوگا اور ہمیں وہی طرزِ عمل اپنانا ہوگا جو سب سے بہتر ہوگا۔

ٹی بی کی طرح کورونا وائرس کے شکار افراد کو بھی ہماری ہمدردی درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس مرض کا شکار بن سکتا ہے۔ اور یہ کوئی سزائے موت نہیں بلکہ ایک عمل کا مطالبہ ہے۔ آئیے ٹی بی کے اس عالمی دن کے موقعے پر ٹی بی سے سبق حاصل کریں۔ آئیے عہد کریں کہ اس بار ہم بہتر انداز میں اس لڑائی کو جیتیں گے۔


انگلش میں پڑھیں۔

عظمی خان

عظمی خان ٹی بی اور شعبہ صحت میں مساوات اور عالمی صحت کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔