نقطہ نظر

کورونا وائرس کے بعد زمیں کو نئی زندگی مبارک ہو!

کیا کورونا انسان کے لیے آخری وارننگ ہے کہ اگر اس نے اپنا چلن نہیں بدلا تو پھر اس کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں؟

ایک شریر بچہ جب اپنے ہی گھر میں توڑ پھوڑ شروع کردے اور کسی کی بات نہیں مانے تو پھر گھر والے سزا کے طور پر اسے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر اس نے مزید یہ کام کیا تو اسے کمرے میں بند کردیا جائے اور جب دھمکی بھی کام نہیں آئے تو پھر عملی طور پر ایسا کچھ دیر کے لیے کر بھی لیا جاتا ہے۔ بالکل ایسا ہی آج حضرتِ انسان کے ساتھ ہورہا ہے۔

اس شریر بچے نے قدرت کی کسی تنبیہ پر کان نہیں دھرا اور بس کسی بدمست ہاتھی کی طرح کرہِ ارض کو روندھتا رہا۔ مگر پھر قدرت کو ہی حرکت میں آنا پڑا، جس نے اس بچے کے کان مروڑے اور اسے سزا کے طور پر بند کردیا۔ آج دنیا کے دسیوں ممالک کے اربوں انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تمام سرگرمیاں ترک کرکے لاک ڈاؤن پر مجبور ہوچکے ہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ کورونا وائرس انسان کے لیے آخری وارننگ ہے کہ اگر اس نے اپنا چلن نہیں بدلا تو پھر اس کی داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں؟

کورونا وائرس کا سب سے پہلا مریض 31 دسمبر کو سامنے آیا۔ دنیا کے لیے یہ وائرس نیا تھا، لہٰذا اسے سمجھنے میں خاصا وقت لگ گیا۔ اس وائرس نے سب سے پہلے چین کے شہر ووہان کو اپنا نشانہ بنایا جہاں 81 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے جن میں سے 3 ہزار 272 موت کے گھاٹ اتر گئے۔

اس وائرس نے تو جیسے معاشی طور پر چین کا گلہ ہی گھونٹ دیا۔ کارخانے، جہاز، سیاحت، تعلیمی ادارے سب کچھ بند ہوچکے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی کہنا چاہوں گی کہ چین معاشی طاقت ضرور تھا مگر اس معاشی ترقی کے اثرات صرف چین کے ماحول پر ہی نہیں، بلکہ ساری دنیا کے لیے بدترین تھے۔

یاد رہے کہ چین دنیا میں کوئلہ جلاکر توانائی پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ گزشتہ 15 برسوں میں چین عالمی ورکشاپ بنا اور اس کی مقامی مارکیٹ میں زبردست پھیلاؤ ہوا جس کی وجہ سے وہاں کوئلے کا استعمال دگنا ہوچکا ہے۔ صرف 2010ء سے 2014ء کے درمیان چین نے کوئلے سے بجلی بنانے والے جو کارخانے لگائے وہ 228 گیگا واٹ بجلی پیدا کررہے تھے۔ دنیا بھر میں استعمال ہونے والے کوئلے کی مقدار کا قریب نصف (49 فیصد) چین استعمال کرتا ہے۔

کوئلے پر انحصار کی وجہ سے چین جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے وہ امریکا سے بھی زیادہ ہے اور اب یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نے زمین کے ماحول اور فضا کو کیسے برباد کیا ہے۔ پچھلے سال امریکا میں ہونے والے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا کہ چین میں فضائی آلودگی خوفناک حد تک بڑھنے سے کم از کم 4 ہزار افراد روزانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے مطابق ہر سال چین میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 16 لاکھ افراد دل، پھیپھڑوں اور فالج کے باعث ہلاک ہورہے ہیں اور یہ فضائی آلودگی کوئلے سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہورہی ہے۔ مزید یہ کہ چین کی 38 فیصد آبادی انتہائی آلودہ علاقوں میں رہتی ہے جن میں بیجنگ کا جنوب مغربی علاقہ سب سے زیادہ آلودہ ہے۔

لیکن اب پچھلے چند ماہ میں جب چین کے لوگ گھروں میں محصور ہوچکے ہیں، لاکھوں کارخانے بند ہوچکے ہیں اور ہر طرح کی زمینی اور فضائی نقل و حرکت رک چکی ہے تو بہت سی اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے مصنوعی سیارچوں سے حاصل کی گئی تصاویر کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ چین کی فضاؤں میں انتہائی مضر صحت گیس نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں غیر معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ چین میں اس فضائی آلودگی میں کمی کی وجہ سے پچھلے 2 ماہ میں 5 سال سے کم عمر کے 4 ہزار بچوں اور 70 سال سے زائد عمر کے 73 ہزار بزرگوں کی جانیں بچی ہیں۔ یہ بچت اس جانی نقصان سے کہیں زیادہ ہے جو کورونا سے اس دنیا میں ہوچکا ہے۔

اسی طرح ہانگ کانگ کے مصروف شہری علاقوں خصوصاً سینٹرل کاسزوے اور مونگ کونگ میں ماحولیاتی جائزے کے بعد اندازہ ہوا کہ فضائی آلودگی کے چھوٹے ذرات میں 32 فیصد کمی اور بڑے ذرات میں 29 فیصد جبکہ نائٹروجن آکسائیڈ میں 22 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ہانگ کانگ کے شہروں میں آلودگی کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ، بحری جہاز، کشتیاں اور توانائی منصوبے ہیں۔ ہانگ کانگ میں فضائی آلودگی سے تقریباً ہر سال 15 ہزار بچوں کی قبل از وقت پیدائش اموات ہورہی تھیں۔

یہی نہیں بلکہ امریکا کی فضائی آلودگی میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ جو کاروں کے چلنے سے خارج ہوتی ہے اس میں 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ زمین کو دہکانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں بھی تیزی سے کمی آرہی ہے۔ معاشی سرگرمیاں رُک جانے سے گرین ہاؤس گیسوں میں بھی کمی ہوجائے گی۔

امریکا کے کئی شہر اب تک لاک ڈاؤن ہوچکے ہیں، یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے موسمیاتی تبدیلیوں کو حقیقت ماننے سے انکار کردیا تھا اور اس حوالے سے اپنی معاشی سرگرمیاں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مضر گیسوں میں کوئی کٹوتی کرنے پر تیار نہیں تھے۔ حتیٰ کے ’عالمی پیرس معاہدے’ کو بھی انہوں نے جوتے کی نوک پر رکھ لیا تھا۔ لیکن اب قدرت نے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اب امریکیوں سمیت دنیا بھر کے تمام افراد کے کاربن فُٹ پرنٹ میں کتنی تبدیلی لانی ہے یہ اب کوئی صدر یا وزیرِاعظم نہیں بلکہ خود قدرت طے کرے گی۔

انسان گھر میں قید ہوا تو بہت کچھ بدلنے لگا اور یہ بدلاؤ زمین، ماحول اور اس کی فضا پر مثبت اثرات مرتب کررہا ہے۔ اٹلی چین کے بعد دوسرا شدید متاثرہ ملک ہے۔ یہاں کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد اب چین میں ہونے والی اموات سے بڑھ کر 5 ہزار 476 ہوچکی ہے جبکہ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تقریباً 60 ہزار ہوچکی ہے۔ اٹلی کے وزیرِاعظم نے مرنے والوں کی تعداد بتانے کے ساتھ یہ اپیل بھی کی کہ وہ گھروں میں موجود رہیں۔ ریاست آپ کی دیکھ بھال کرے گی۔ یہ سیاحوں کے پسندیدہ ملک اٹلی کا ماجرہ ہے۔

اٹلی اپنے تاریخی اور خوبصورت مقامات کے باعث دنیا بھر میں اہم سیاحتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ اٹلی کے شہر وینس کو سیاحت کے ماتھے کا جھومر پکارا جاتا ہے۔ وینس کا قدیمی حصہ 1987ء سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی میراث میں شامل ہے۔ اٹلی کا یہ شہر 118 جزائر پر مشتمل ہے جن تک رسائی شہر میں موجود نہروں کے ذریعے ممکن ہے۔ ان ہی نہروں کی وجہ سے وینس کو تیرتا ہوا شہر بھی کہا جاتا ہے۔

وینس کا اوپیرا ہاؤس، سنہرا جزیرہ اور اس کی گاتھک طرزِ تعمیر میں بازنطینی اور عثمانی حکومتوں کی چھاپ اسے دنیا بھر میں منفرد بناتی ہیں۔

عالمی سیاحت کے میدان میں اٹلی کا 5واں نمبر ہے۔ 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق اٹلی میں اُس سال 6 کروڑ سے زیادہ غیر ملکی سیاح گھومنے آئے تھے۔ ہر سال لاکھوں افراد بڑی جسامت کے کروز بحری جہاز کے ذریعے آتے ہیں لیکن آج اسی اٹلی کی سڑکوں پر ہُو کا عالم ہے۔ اس کے خوبصورت شہر ڈراؤنی فلموں کے کسی گھوسٹ ٹاؤن کا منظر پیش کررہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب اس لاک ڈاؤن سے اس زمین، ماحول اور فضا کو نئی زندگی مل رہی ہے۔

بحیرہ روم میں جب سیاحوں کے بڑے بڑے کروز آنے بند ہوئے تو سمندر میں زندگی لوٹ آئی۔ صاف شفاف سمندر اور وینس کی نہروں میں باآسانی ڈولفن اور مچھلیوں کو اٹھکھلیاں کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

وینس کے میئر کا کہنا ہے کہ کشتیوں کی آلودگی اور شور میں کمی آنے سے ڈولفن لوٹ آئی ہیں۔ وینس ہی میں موجود کئی لوگوں نے بہت سے کمیاب پرندوں کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں جو کئی دہائیوں بعد شہر کی فضا میں چہچہا رہے ہیں۔ یورپی خلائی ایجنسی نے بھی لاک ڈاؤن سے پہلے اور بعد کی فضا کا موازنہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’کوپرنیکس سینٹینل 5 سیٹلائٹ‘ سے لی گئی تصاویر استعمال کی ہیں۔ ان کے مطابق فضا میں نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں واضح کمی دیکھی گئی۔ یہ اس ملک کا قصہ ہے جہاں موت کے سیاہ سائے پھیلے ہوئے ہیں لیکن اسی شر سے خیر کا جنم ہورہا ہے۔


کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز ہے۔ کارخانوں سے نکلتی مضر گیسوں، ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام، اڑتی دھول اور مٹی نے اس شہر میں زندگی کو بہت مشکل کردیا ہے۔ گاڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں یا تیل اور گیس کے جلنے سے پیدا ہونے والے بخارات پھیپھڑوں کو شدید متاثر کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس فضائی آلودگی سے پاکستان میں اوسط عمر کے سال کم ہوسکتے ہیں۔

اب جبکہ کراچی کے شہری بھی کورونا سے بچاؤ کے لیے گھروں میں لاک ڈاؤن کیے بیٹھے ہیں، کارخانے، تعلیمی ادارے، دفاتر اور بڑے بڑے خریداری کے مراکز اور ہوٹل بند ہوچکے ہیں۔ سڑکوں سے ٹریفک غائب ہے تو صرف چند ہی دن میں کراچی بھی ’ایئر کوالٹی انڈیکس‘ میں بہتر پوزیشن یعنی 27 پر آچکا ہے جبکہ چند ماہ پہلے کراچی کا درجہ دسمبر میں 159ویں نمبر پر تھا۔

دنیا بھر میں ’فوڈ سیکیوریٹی یا غذائی تحفظ‘ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ان حالات میں شاید اس حوالے سے بھی بہتری سامنے آئے کیونکہ ہوٹل بند ہیں تو یقیناً بسیار خوری میں بھی کمی آئے گی (مزیدار کھانے زیادہ کھائے جاتے ہیں اور ہوٹل میں بچے ہوئے کھانوں کا نقصان الگ ہوتا ہے، گھر پر لوگ ناپ تول کر پکاتے اور کھاتے ہیں۔) ان ہوٹلوں سے نکلتا کوڑا کرکٹ جسے انتہائی بے تکلفی سے ندی نالوں یا سڑکوں پر پھینک دیا جاتا تھا اس میں بھی کمی آئے گی۔ امید ہے کہ کچھ ہی دنوں میں سڑکوں پر موجود کچرے کے یہ پہاڑ بھی سکڑ جائیں گے۔

شور شرابا اور ہنگامہ سڑکوں سے کم ہوگا تو فضائیں بھی پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج اٹھیں گی۔ گلہریاں دیواروں پر اچھلتی کودتی نظر آئیں گی۔ گھر میں جو چند پودے ہیں آپ ان پر تتلیاں بھی دیکھ پائیں گی (یہ سب ہمارے ذاتی تجربات ہیں۔)

ہم میں سے بہت سوں نے کفایت شعاری کا صرف نام سنا تھا مگر اس دوران عملی تجربہ بھی ہوجائے گا۔ سادہ زندگی سر سے بہت عذاب ٹال دیتی ہے۔ اس حوالے سے ایک بھولے بسرے سبق کا آموختہ کرلیں۔ 4 باتیں یاد رکھ لیں۔

1400 سال پہلے کا سبق تو یاد ہی ہوگا یعنی ’جو چاہے کھاؤ اور پہنو مگر اصراف نہ کرو۔‘

یہ بیماری تو ہمارے لیے کسی بھی طور پر اچھی نہیں، اور اس سے ہم جتنی جلدی جان چھڑا لیں یہی ہمارے لیے اچھا ہے، لیکن یہ بیماری اپنی تلخی اور سختی کے ساتھ ہمارے لیے کچھ سوچنے اور سمجھنے کا سامان بھی لائی ہے۔

دوڑتی بھاگتی مشینی زندگی میں جو ٹھہراؤ آیا ہے اسے غنیمت جانیے۔ بہت عرصے بعد اپنے آپ سے ملاقات کیجیے اور یہ سوال خود سے ضرور پوچھیے کہ آخر اس دنیا میں آنے کا کیا مقصد تھا، کیا وہ پورا ہوا؟

کیا ہم نے کبھی کسی اور کے فائدے کے لیے بھی کچھ کیا یا کم از کم ایسا سوچا؟ کھانا پینا، شادی بچے، یہ تو سارے جاندار کرتے ہیں، کیا ہم نے کچھ ایسا کیا جو اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہمیں کرنا چاہیے تھا۔ یقین جانیے یہ لاک ڈاؤن آپ کی اور اس کرہِ ارض کی زندگی بدل دے گا۔ چند ماہ بعد جب حالات بدلیں گے تو ہم بھی خود کو بدلا ہوا اور پہلے سے بہتر پائیں گے۔

کورونا وائرس کے ذریعے قدرت نے انسان کو گھر بٹھا کر زمین کو جینے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے لیکن اس میں ہمارے لیے جو سبق ہے وہ ہمیں سیکھنا ہی ہوگا۔

شبینہ فراز

شبینہ فراز سینئر صحافی ہیں، پچھلے 15 برسوں سے ماحولیات کے موضوع پر لکھ رہی ہیں۔ آپ کو مختلف ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔ آپ غیر ملکی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز رکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف بین الاقوامی فیلو شپ بھی حاصل کرچکی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔