اس حوالے سے بڑی کمپنیوں کی جانب سے افواہوں اور غلط معلومات کی فراہمی روکنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں کیے جانے والے اقدامات درج ذیل ہیں۔
فیس بک فیس بک نے 19 مارچ کو کورونا وائرس انفارمیشن سینٹر نیوزفیڈ پر سب سے اوپر متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا۔
یہ انفارمیشن سینٹر فیس بک کا نیا فیچر ہے جس کا مقصد وائرس کے حوالے سے حکومتوں اور طبی محققین کی جانب سے فراہم کی جانے والی کارآمد معلومات لوگوں تک پہنچانا ہے جبکہ غلط اطلاعات پھیلنے کی شرح کم از کم کرنا ہے۔
یہ انفارمیشن سینٹر رئیل ٹائم میں اپ ڈیٹ ہوگا، جبکہ عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر آفیشل ذرائع سے نئی معلومات اور تجاویز فراہم کی جائیں گی۔
اسی طرح فیس بک میں کورونا وائرس کے علاج کے حوالے اشتہارات پر پابندی عائد کی گئی جبکہ عالمی ادارہ صحت کو 2 کروڑ ڈالرز مالیت کے اشتہارات کی جگہ فراہم کرنے کا اعلان کیا۔
انسٹاگرام انسٹاگرام کی جانب سے ہر صارف کی فیڈ کے اوپر ایک نوٹس پن کیا جارہا ہے جو قابل اعتبار طبی ذرائع کا لنک ہے جبکہ ایپ میں ایسے تمام ایفیکٹس کو بند کیا جارہا ہے جو وائرس سے متعلق ہوں۔
واٹس ایپ واٹس ایپ نے اپنی ویب سائٹ پر کورونا وائرس سے متعلق مستند معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے واٹس ایپ کورونا وائرس کا پیچ متعارف کرایا، جہاں پر لوگوں کو دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبا سے متعلق درست معلومات تک رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے۔
واٹس ایپ کی جانب سے متعارف کرائے گئے کورونا وائرس کی معلومات کے فیچر کو نہ صرف صحت سے متعلق عالمی اداروں کے تعاون سے پیش کیا گیا ہے بلکہ اس فیچر میں درست معلومات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے میسیجنگ ایپلی کیشن نے متعدد فیکٹ چیکر اداروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ واٹس ایپ کے کروڑوں صارفین کو درست معلومات کی فراہمی کے لیے عالمی ادارہ صحت نے بھی ایک ہیلتھ الرٹ یا چیٹ بوٹ متعارف کرایا ہے جو اعدادوشمار، مختلف سوالات کے جواب اور دیگر معلومات فراہم کرتا ہے۔
اس مقصد کے لیے +41 79 893 1892 کو فون کانٹیکٹ میں سیو کرکے اس پر hi کا مسیج کردیں، آپ کے سامنے مینیو کھل جائے، جس میں مختلف ایموجیز کے ذریعے مطلوبہ معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔
ٹوئٹر ٹوئٹر میں اگر کورونا وائرس سے متعلق ہیش ٹیگ سرچ کیے جائیں تو انسٹاگرام جیسا نوٹس سانے آتا ہے جس میں قابل اعتبار طبی ذرائع سے معلومات کے حصول کا لنک ہوتا ہے، اس کے علاوہ ایسے ٹوئٹس کو ڈیلیٹ کیا جارہا ہے جس میں سازشی خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ مختلف کمپنیوں کو صورتحال کی حساسیت کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔