نقطہ نظر

کورونا وائرس، برطانیہ میں معمولات زندگی کیسے ہیں؟

سامان مہنگا بیچنے پر دکانداروں کے خلاف کارروائیاں ہوئیں اور ایسے کاروباری حضرات کے خلاف شکایت کیلئے نمبرز بھی دیے ہیں۔

منیب الرحمٰن ہمارے اچھے دوست اور ہمسائے ہیں، اس لیے اکثر ماہانہ گروسری اور مارکیٹ سے ضروری اشیا لانے کے لیے بلاجھجک ان سے درخواست کردیتا ہوں اور یہ ماتھے پر شکن لائے بغیر بات مان بھی جاتے ہیں۔

برطانیہ، خصوصاً لندن کی مخصوص گہما گہمی میں یہ مدد، کسی احسان سے کم نہیں۔ منیب، اچھے اور سیدھے سادھے لوگوں کی طرح صبح وقت پر اپنے کام کے لیے روانہ ہوتے اور مقررہ وقت پر ہی واپس لوٹ آتے ہیں۔ یوں گھر، دوستوں اور ذاتی کاموں کے لیے ان کے پاس وافر لمحات دستیاب ہوتے ہیں اور یہ اسے بخوبی استعمال میں بھی لاتے ہیں۔

اس ہفتے کے بالکل آغاز میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ میں نے روٹین میں کچھ اشیا کی فہرست انہیں میسج کی تو فوراً جواب آیا کہ بھائی، کورونا کی وجہ سے ’پینک بائینگ‘ نہ کریں، کچھ واقعی ضروری چاہیے تو خریداری کرتے ہیں ورنہ افواہوں کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، حالات معمول پر ہیں۔

خیر انہیں تسلی کروائی کہ یہ چند چیزیں تو روز مرہ استعمال کی ہیں، اس لیے مطمئن رہیں۔ لیکن انہوں نے شام کو ایک بڑے اسٹور پر جاکر جو ویڈیو بناکر بھیجی وہ حیران کن تھی، اور پہلی بار براہِ راست اندازہ ہوا کہ حالات واقعی معمول پر نہیں ہیں اور جس صورتحال کا ہمیں سامنا ہے اس سے قبل یہ شاید کتابوں میں پڑھا یا فلموں میں ہی دیکھا تھا۔ اسٹور میں کھانے پینے کے سامان سمیت تمام ضروری اشیا کے ریک بالکل خالی تھے، شاید کچھ بسکٹ یا چاکلیٹ وغیرہ کی ورائٹی پڑی، منہ چڑھا رہی تھی۔

اس قسم کی کچھ ویڈیوز پہلے ہی سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھیں لیکن انہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یہی سمجھا گیا کہ سوشل میڈیا صارفین اپنی روایت کو جاری رکھتے ہوئے، غلط معلومات پھیلا رہے ہیں اور معاملہ اتنا نہیں بگڑا۔

اسی دن دفتر کے کچھ مزید ساتھیوں نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ معمول کی اشیا کی خریداری میں مشکل پیش آرہی ہے اور کئی چیزیں مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب نہیں اور جہاں دستیاب ہیں وہاں لمبی قطاریں لگی ہیں۔ سچ پوچھیے تو یہ صورتحال جان کر واقعی پریشانی محسوس ہوئی۔

کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلنے والے خوف اور پھر اس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ’سماجی فاصلہ‘ رکھنے کے احکامات موصول ہونے کے بعد برطانیہ میں حالات انتہائی تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔

جب یہ معاملہ شروع ہوا اور افواہیں اور مبہم معلومات کا آغاز ہوا تو کچھ لوگوں نے ضرور اضافی خریداری شروع کردی تھی، جس سے وقتی طور پر سپلائی متاثر ہوئی، مگر جب لوگوں کو اندازہ ہوا کہ معاملہ خراب ہے تو پھر صورتحال ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کھانے پینے کی اشیا کی بڑھتی طلب کے سبب، برطانیہ کا ایک بڑا آن لائن اسٹور اپنی سروس کو بند کرنے پر مجبور ہوگیا کیونکہ اسے آرڈرز پورا کرنے میں واضح دشواری کا سامنا تھا۔

اشیائے خور و نوش اور ضروری چیزوں کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اب بڑے اسٹورز نے اپنے طور پر منصوبہ بندی کرلی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ طلب اور رسد کے نظام میں تعطل کو دُور کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے بہت سی جگہوں پر خریداروں کو سختی سے ایک محدود تعداد میں چیزیں خریدنے کی اجازت دی جارہی ہے جبکہ کئی بڑے اسٹورز جو معمول میں 24 گھنٹے کھلے رہتے تھے، اب رات 10 بجے تک کھلے رہیں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران، برطانیہ میں ہر حوالے سے حالات تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھی ہے اور اموات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے کیسوں کی تعداد ساڑھے 5 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ اس موذی مرض کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 280 سے بھی بڑھ گئی ہے۔

پھر جب صورتحال مزید بگڑنے لگی تو دنیا بھر کی طرح حکام نے یہاں بھی لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی اور کہا کہ اشد ضرورت کے وقت ہی باہر نکلا جائے اور اگر ممکن ہو تو کام گھر سے ہی کرلیا جائے۔ بس اس اپیل کے بعد بڑے پیمانے پر دفاتر نے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر ایک ساتھ اپنے اپنے گھر بیٹھ کر کام کرنا یقیناً ایک نیا تجربہ ہے اور اس میں مشکلات بھی آرہی ہیں خصوصاً ایسے پراجیکٹس میں جن میں ایک سے زیادہ افراد شامل ہیں، لیکن بہرحال اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی ہر کمپنی مختلف حل نکالتی دکھائی دے رہی ہے۔

گھروں سے کام کرنا شاید ایک سہولت ہو لیکن گھر کا پُرسکون اور آرام دہ ماحول یقیناً کام پر توجہ مرکوز رکھنے میں ایک واضح رکاوٹ ہے۔ خیر اس دشواری پر قابو پانے کے لیے ہم نے فی الحال، اپنی ڈائننگ ٹیبل کو ورک اسٹیشن میں تبدیل کرلیا ہے اور دفتری امور بروقت سرانجام دیے جارہے ہیں۔ سردست گھر سے کام کرنے کے دوران دھیان ہر کچھ دیر بعد باہر کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر جاتا ہے خاص کر تب جب لمبے وقفے کے بعد کوئی بھولی بسری کار فراٹے بھرتی گزرتی ہے۔

ایسا نہیں کہ سڑکیں اور بازار بالکل ہی سنسان ہیں یا ہُو کا عالم ہے، لیکن بہرحال اسکول اور دفاتر کے علاوہ ریسٹورینٹ، کیفے اور جِم وغیرہ بند کرنے کے اعلان کے بعد چہل پہل میں واضح کمی ہوئی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے بار بار اپیل کرنے کے باعث اب لوگوں کو اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر ضروری میل جول سے بچنے کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے اور وہ گھروں سے باہر نکلنے سے پرہیز کررہے ہیں۔

ایک اور تبدیلی یہ آئی کہ سڑک پر نظر آنے والا تقریباً ہر فرد چہرے پر ماسک پہنے نظر آرہا ہے اور گروسری اسٹورز اور فارمیسی وہ چند ایسے مقامات ہیں جہاں نسبتاً رش نظر آرہا ہے۔ جب میں فارمیسی گیا تو 20 منٹ قطار میں کھڑے ہونے کے بعد معمول کی پین کلر لینے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس انتظار کی وجہ لوگوں کا ہجوم نہیں تھا، بلکہ مخصوص صورتحال کے باعث فارمیسی والے ایک وقت میں صرف 5 افراد کو اندر آنے کی اجازت دے رہے تھے اور بقیہ لوگوں سے یہ درخواست تھی کہ وہ باہر فٹ پاتھ پر ہی قطار بنائے اپنی باری کا انتظار کریں۔

حجام کی دکان پر معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ چھٹی والے دن عموماً بال کٹوانے کی جس دکان میں 2 گھنٹے کے انتظار کے بعد باری آتی ہے، وہ صاحب دکان پر بالکل اکیلے بیٹھے اپنے اوزاروں سے کھیلتے ملے۔

اگر پارکوں کی بات کریں تو یہاں بھی صورتحال ملی جلی ہے۔ یہاں بھی نہ بالکل سناٹا ہے اور نہ بہت زیادہ رش۔ یہاں کچھ فیمیلیز بھی نظر آئیں جنہوں نے معقول فاصلے کو ملحوظِ خاطر رکھا ہوا تھا۔ پھر اپنے پالتو جانوروں کو ٹہلانے کے لیے آنے والے افراد بھی چہل قدمی کرتے ملے۔

ہاں لیکن پارک میں موجود ’اوپن ائیر‘ جِم میں لوگوں کی مناسب تعداد ضرور نظر آتی ہے، کیونکہ اس وائرس کے بعد جِم اور فٹنس سینٹرز گزشتہ کئی دنوں سے بالکل بند ہیں، اور یہاں لوگ کچھ اور خیال کریں نہ کریں، مگر اپنی فٹنس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔

پارک سے واپسی پر، محلے میں ایک اور صاحب سے دُور دُور سے ہیلو ہائے ہوئی جو اپنی گاڑی پارک کرنے کے بعد اس کی بے ترتیب ڈگی کو صاف کر رہے تھے اور اس میں موجود فالتو اشیا پاس پڑے کوڑے دان میں پھینک رہے تھے۔ واقعی، لوگ فراغت کے اس وقت کو استعمال کرتے ہوئے طویل عرصے سے زیر التوا کاموں کو سر انجام بھی دے رہے ہیں۔

اس غیر معمولی صورتحال میں جب طرزِ زندگی میں اچانک سے بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں اور روزمرہ کے معمولات متاثر ہورہے ہیں، لامحالہ اس بات کی ضرورت ہے کہ حالات کا سامنا کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھی اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی نے انوکھا کام یہ کیا کہ اردگرد رہنے والی تقریباً 12 فیملیز کے افراد کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا لیا ہے تاکہ ایسے وقت میں جب سب ہی سماجی طور پر دُوری اختیار کیے ہوئے ہیں، تو ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہا جائے اور معمولاتِ زندگی کی انجام دہی میں ایک دوسرے کا مددگار بنا جاسکے۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے گروپ بنانے کے بعد سب سے پہلے خود یہ اعلان کیا کہ شام کو وہ کچھ ضروری اشیا کی خریداری کے لیے مارکیٹ جارہے ہیں اور اگر کسی کو کوئی چیز چاہیے تو بلاتکّلف اظہار کردے تاکہ اسے خود باہر نہ جانا پڑے اور سامان بھی گھر کی دہلیز پر میسر ہوجائے۔ یہ یقیناً ایک قابلِ تقلید بات ہے اس سے نا صرف اپنے اردگرد رہنے والوں کو ایک سہولت فراہم کی جاسکتی ہے بلکہ ایک ہی وقت میں گھر سے باہر نکلنے والے افراد کی تعداد میں مزید کمی بھی لائی جاسکتی ہے۔

اسی طرح ایک اور دوست، بچوں کے لیے انٹرنیٹ پر موجود تعمیری و اصلاحی مواد اور دلچسپ سرگرمیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان خاندانوں کو مستقل بنیادوں پر بھیج رہے ہیں جن کے بچے اسکول جانے کی عمر کے ہیں اور کورونا کے خطرے کے باعث ان کے اسکولز بند کردیے گئے ہیں۔ یوں، نئے حالات میں ایک دوسرے کی مدد کے نئے طریقے متعارف ہورہے ہیں اور شاید انسان کی فطرت بھی یہی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات کے مطابق خود کو جلد از جلد ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

اب اگر کچھ برطانوی حکومت کا ذکر کریں تو اس سارے معاملے میں برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن، اب روزانہ کی بنیاد پر عوام کو کورونا وائرس اور اس کے تدارک کی حکومتی کوششوں کے حوالے سے پریس کانفرنس کے ذریعے آگہی دے رہے ہیں۔ ان کی جانب سے بار بار اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ صورتحال کو جلد قابو میں لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ عوام مکمل تعاون کریں۔

حکومت نے اس ضمن میں عملی اقدامات بھی اٹھائے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ بینک آف انگلینڈ کاروباری اداروں کو ریلیف دینے کے لیے شرح سود تاریخ کی کم ترین سطح پر لے آیا ہے۔ گھروں کی اقساط اور کرایوں کو کم از کم 3 ماہ کے لیے نرم کیا جائے گا جبکہ بزنس ٹیکس کے حوالے سے بھی نرمی کے اشارے مل رہے ہیں۔

برطانوی جمہوری نظام کی اصل خوبصورتی یہاں مقامی حکومتوں کے مضبوط نظام میں ہے۔ مقامی کونسل ہی عموماً رہائشیوں کے روزمرہ کے معاملات میں سہولتیں فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ کورونا وائرس کے حوالے سے جہاں روزانہ کی بنیاد پر مرکزی حکومت کی جانب سے معلومات اور ہدایات کا سلسلہ جاری ہے وہیں مقامی کونسلز بھی تندہی سے رہائشیوں کو حالات سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات بھی اٹھاتی نظر آرہی ہے۔ بعض جگہوں پر سامان کو حد سے زیادہ مہنگا بیچنے پر مقامی دکانداروں کے خلاف کارروائیاں بھی ہوئی ہیں اور ایسے کاروباری حضرات کے خلاف شکایت کرنے کے لیے شکایتی نمبرز بھی جاری کردیے گئے ہیں۔

عوامی سطح پر خوف اور وسوسے اپنی جگہ لیکن اس غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ سماجی تنظیمیں اور مختلف کمیونٹیز بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ فاسٹ فوڈ کے ایک معروف برانڈ نے برطانیہ بھر میں ایمرجنسی سروسز میں کام کرنے والے عملے کے لیے مفت مشروبات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ اپنا شناختی کارڈ دکھا کر کسی بھی اسٹور سے مفت ڈرنک حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح معروف برطانوی فٹ بال کلب مانچسٹر یونائٹڈ کے سابق کھلاڑی، گیری نویل نے مانچسٹر میں موجود اپنے 2 ہوٹلز خالی کرکے وہاں نیشنل ہیلتھ سروس کے عملے کو رہائش مہیا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنے میں کسی حد تک آسانی ہوسکے۔

ملکہ برطانیہ نے بھی آفت کے اس وقت میں اپنے خصوصی پیغام میں اس بات کا اظہار کیا کہ برطانیہ کی تاریخ مختلف قومیتوں اور برادریوں کے باہم کام کرنے ہی سے بنی ہے اور ان غیر معمولی حالات میں بھی تمام کمیونیٹیز کو مل جل ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہے۔

مسلم کمیونٹی برطانیہ بھر میں منظم انداز میں کام کرنے کے حوالے سے معروف ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کا عملی مظاہرہ تب نظر آیا جب تقریباً 2 سال قبل رمضان کے دوران، لندن کی ایک 24 منزلہ رہائشی عمارت میں رات گئے آگ بھڑک اٹھی اور اس افسوسناک واقعہ میں 72 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے کے دوران اور اس کے فوری بعد متاثرین کے بچاؤ، امداد اور بحالی کے لیے مقامی مسلم تنظیموں اور مساجد کے کردار کو برطانوی اور انٹرنیشنل میڈیا میں نمایاں کوریج ملی تھی۔

کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی برطانوی مسلمان پُرعزم نظر آتے ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تشویشناک اور تیزی سے ہونے والے اضافہ کو دیکھتے ہی برطانوی مسلمانوں کے نمائدہ پلیٹ فارم، مسلم کونسل آف برٹن (ایم سی بی) نے تفصیل اور صراحت کیساتھ برطانیہ بھر میں موجود مساجد اور مدارس کے لیے ہدایات جاری کیں اور حکومتی اپیل سے قبل ہی اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مساجد میں زیادہ افراد کے اجتماع سے پرہیز کا مشورہ دیا۔

ایم سی بی نے برطانوی مسلمان ڈاکٹرز کی تنظیم برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کیساتھ مل کر اس خطرے سے طبّی بنیادوں پر نمٹنے کے لیے بھی لائحہ عمل بنایا ہے اور اپنے حلقہ اثر میں بھرپور انداز میں اس کی ترویج کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

مشوروں اور آگہی مہم سے آگے بڑھ کر، برطانیہ میں کام کرنے والی، مسلم سماجی تنظیموں نے اس مشکل صورتحال میں اپنے ہم وطنوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے عملی اقدامات کے سلسلے کا بھی آغاز کردیا ہے۔

یوں، کورونا نے حقیقتاً بہت کچھ تبدیل کردیا ہے، خاص طور پر معمولات اور طرزِ زندگی۔ کورونا ایک حقیقت ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال بھی ایک خوفناک حقیقت ہے۔ اس پورے معاملے کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ صرف وہی لوگ متاثر نہیں ہورہے جن تک یہ وائرس پہنچ چکا ہے بلکہ اس وائرس کے خوف نے پوری دنیا کے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔

اس موقع پر طبّی عملے اور حکام کی جانب سے دی جانے والی ہدایات پر شد و مد کیساتھ عمل کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد موجود افراد، خاص کر کم وسائل کے حامل طبقے سے مسلسل رابطے، دلجوئی اور ان کی ضروریات پوری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس مشکل گھڑی میں ان کے مصائب کو کچھ کم کیا جاسکے۔

احمد شاہین

لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کورونا وائرس کا پھیلاؤ: اٹلی ہمیں کیا سبق دے رہا ہے؟

چین میں کورونا وائرس کا سامنا کرنے والے پاکستانی نے کیا کچھ دیکھا؟

قرنطینہ کہانی: ایران سے تفتان کا میرا سفر کیسا رہا؟ میں نے کیا کچھ دیکھا؟ (پہلا حصہ)