قرنطینہ کہانی: ایران سے تفتان کا میرا سفر کیسا رہا؟ میں نے کیا کچھ دیکھا؟ (پہلا حصہ)
میری ملازمت سعودی عرب میں ہے اور ایک میٹنگ کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا۔ میرا معمول ہے کہ جب بھی پاکستان آتا ہوں تو ایران کا ویزا بھی لازمی لگواتا ہوں۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ بھائی ایران کا ویزا لازمی کیوں لگوایا جاتا ہے؟ تو جناب، بات دراصل یہ ہے کہ میری اہلیہ ایرانی ہیں اور چونکہ نہ سعودی عرب میں ایرانی سفارتخانہ کام کرتا ہے اور نہ ایران میں سعودی سفارتخانہ، لہٰذا ایران جانے کی ذمہ داری پاکستان آنے پر ہی پوری کرتا ہوں۔
اس بار بھی میرا ارادہ یہی تھا کہ سعودی عرب واپسی سے پہلے ایران میں مقیم اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کی جائے۔ میری آمد کے اگلے دن ایران میں انتخابات ہونے تھے۔ ایرانی دوستوں سے گفتگو کے دوران پتا چلا کہ کورونا ایران میں اپنے ڈیرے جما چکا ہے لیکن حکومت سیاسی وجوہات کی بنا پر اس کا اعلان کرنے سے گریزاں ہے۔ بہرحال شام تک پولنگ مرحلے کے ختم ہونے کے ساتھ ہی کورونا کی پھوٹ کا باقاعدہ اعلان سرکاری ٹی وی سے کردیا گیا۔
فارسی ٹی وی چینلز من و تو اور ایران انٹرنیشل کی دی گئی تمام خبریں بالکل ٹھیک ثابت ہوئیں۔ مجھے واپسی کا فیصلہ کرنے میں کچھ گھنٹے لگے اور میں نے ریاض واپسی کے لیے براستہ شارجہ ایئر عربیہ کی ٹکٹ خرید لی جو ایک دن بعد کی تھی۔
ایک دن جیسے تیسے گزر گیا۔ پریشانی یہ تھی کہ حالات زیادہ خراب ہونے کی صورت میں اپنی فیملی کو کیسے واپس لے کر جاؤں گا۔
پرواز سے 6 گھنٹے پہلے امام خمینی ایئر پورٹ کے لیے نکلنے کی وجہ یہ تھی کہ ایئر پورٹ پر یقینی طور پر حفاظتی چیکنگ کے کڑے انتظامات ہوں گے لیکن حیرانی اس وقت ہوئی جب مجھ سمیت سیکڑوں مسافر بغیر کسی اسکیننگ چیک ان ایریا میں پہنچ گئے۔
اللہ اللہ کرکے 2 گھنٹے گزرے تو چیک ان کاؤنٹر پر شارجہ کی پرواز کا نمبر آن ہوگیا۔ لوگوں نے جلدی جلدی قطاریں سیدھی کرلیں۔ امید بندھی تو گھر کال کرکے تسلی دے دی کہ روانگی انشااللہ وقت پر ہوگی۔
2 گھنٹے گزر جانے کے باوجود جب چیک اِن کاؤنٹرز نے کام کرنا شروع نہیں کیا تو لوگوں میں پریشانی بڑھنے لگی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ شارجہ سے آنے والی پرواز منسوخ ہوچکی ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک طرف بھارتی ایئر لائن اور اماراتی ایئر لائن کے مسافروں کو جہاز میں تشریف لے جانے کا اعلان کیا جا رہا تھا تو دوسری طرف کئی پروازوں کی معطلی کی اطلاع دی جا رہی تھی۔
مسافروں کے چہروں پر فکر اور پریشانی کے آثار عیاں تھے۔ فارسی سے نابلد غیر ملکی مسافر اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے کہ کسی کنفرم فلائٹ میں کوئی سیٹ مل جائے۔ کچھ کی کوشش اس وجہ سے ناکام ہوئی کہ ایران میں کریڈٹ کارڈز اور اے ٹی ایم کام نہیں کر رہے تھے اور زیادہ تر اس وجہ سے مایوس تھے کہ ان کی منزلِ مقصود کو جانے والی کوئی پرواز شیڈول نہیں تھی۔
بہت سے مسافر اپنی خالی جیبوں کی وجہ سے پریشان تھے۔ تھوڑی دیر بعد چیک اِن ایریا کو خالی کرنے کا حکم لاؤڈ اسپیکر سے صادر کردیا گیا تو میں بھی ایئر پورٹ سے باہر ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف چل پڑا۔
ایک، 2 دن بعد اس بات کا یقین ہوگیا کہ ایران سے واپسی جلد ممکن نہیں ہوگی، لیکن خدا کا شکر یہ کہ پھنس جانے والے اکثر مسافروں کی طرح مجھے رہنے اور کھانے پینے کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ بلکہ مجھے جہاں ایک طرف ڈیوٹی جوائن کرنے کی فکر تھی تو دوسری طرف گھر والوں کے ساتھ مزید وقت گزارنے کی خوشی بھی۔
میری بیٹی جانان کو نہ جانے کیوں اس بات کا یقین ہوگیا کہ بابا کو جلدی کہیں چلے جانا ہے۔ دن میں کئی کئی بار پوچھتی ’بابا کجا میخوائی بری؟‘ (بابا تم نے کہاں جانا ہے؟)
میرے خواب گاہ کی کھڑکی ایک باغ میں کھلتی ہے جس میں لگے قدآور درخت بہار کے منتظر نظر آتے ہیں۔ مجھے اس باغ سے آنے والی ہوا ہمیشہ سے اچھی لگتی ہے لہٰذا رات کو اکثر کھڑکی کھول دیا کرتا ہوں۔
دن بھر کی مصروفیت کی تفصیل کچھ زیادہ نہیں۔ زیادہ وقت جانان کے ساتھ گزرتا اور باقی ماندہ وقت کھانے پینے اور گپ شپ میں گزر جاتا۔ جانان گھر سے باہر جانے کی ضد کرتی تو 100 طرح کے بہانے بنانے پڑتے۔ اس معصوم کو گھر سے باہر خوف کی فضا نظر نہیں آتی تھی۔
ایک، 2 مرتبہ جب خریداری کے واسطے گھر سے باہر نکلنے کا اتفاق ہوا تو احساس ہوا کہ ملک کوئی بھی ہو ایسے حالات میں لوگ 2 گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ خوف کے شکار لوگ تمام حفاظتی سامان کے ساتھ انتہائی احتیاط سے سڑک کنارے چلتے پھرتے نظر آتے تو دوسری طرف ایمان کی دولت سے مالامال گروہ طنز بھری نگاہوں سے ترسیدہ لوگوں کو کاٹ کھاتے۔ دلائل دونوں اطراف کے ناقابلِ رد ہوتے ہیں۔