پاکستان

کیبل پر جیو ٹی وی کے نمبرز کا معاملہ، عدالت کا وزارت اطلاعات، پیمرا کو نوٹس

آئندہ سماعت سے قبل لائسنس دہندہ کی نشریات میں مداخلت سے متعلق شکایات کو دور کیا جائے، عدالت کی پیمرا کو ہدایت

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیو ٹی وی کو چینلز کی فہرست سے نکالنے یا اس کے نمبرز تبدیل کرنے کے خلاف دائر درخواست پر وزارت اطلاعات و نشریات، پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کی جانب سے دائر ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کی۔

عدالت نے درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکیل بیرسٹر ظفر اللہ خان کو ہدایت کی کہ پٹیشن میں فریقین کی فہرست میں سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کا نام نکالا جائے کیوں کہ کیبل پر ٹیلی ویژن چینل کے نمبر سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میر شکیل کی گرفتاری کے خلاف 3 اپوزیشن جماعتوں کی درخواست دائر

اس سے قبل اسی طرح کی دوسری درخواست کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر جہانگیر خان جدون نے اس بات پر زور دیا تھا کہ آئین کی دفعہ 19 اور 19-اے کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ اب وفاقی حکومت پیمرا کو ہدایات جاری کرتی ہے اس لیے ریگولیٹر کی آزادانہ حیثیت زد میں ہے، درخواست گزاروں کا مؤقف یہ ہے کہ پیمرا آزادی اظہار کے تحفظ اور اپنی قانونی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت میں کسی مجاز افسر کو نامزد کریں اور آئندہ سماعت سے قبل اس کے لائسنس دہندہ کی (نشریات کی) میں مداخلت سے متعلق شکایات کو دور کیا جائے۔

بعدازاں عدالت نے سماعت 24 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اہلیہ کی درخواست پر نیب سے جواب طلب

واضح رہے کہ درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ حکومت نے جیو چینل کو نشانہ بنانے کے لیے نیب کے ذریعے اس کے چیف ایگزیکٹو افسر میر شکیل الرحمٰن کو حراست میں لیا اور پیمرا کے ذریعے خاموش کروانے کی کوشش کی۔

انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ پیمرا کو چینلز کو انہیں نمبر پر بحال کرنے کا حکم دیا جائے جہاں وہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری سے قبل تھا۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا کہ چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کا حکم دے کر نیب آرڈیننس 1999 میں تفویض کردہ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے اور یہ گرفتاری آئین میں دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت اور اعلیٰ عدلیہ کے متعینہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں 8 مارچ 2020 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیا گیا جس میں عدالت نے ملزم کی حراست کے لیے نیب کے لیے حدود و قیود قائم کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: اراضی کیس: میر شکیل الرحمٰن جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ جنگ گروپ کے سربراہ کو گرفتار کرنے سے قبل حکومت نے تنقید کرنے پر جیو ٹی وی انتظامیہ کو خبردار کیا تھا اور دوستانہ پروگرامز کرنے پر زور دیا تھا۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم (میر شکیل الرحمٰن) نہ تو مفرور ہیں نہ ہی دہشت گرد اور نہ ہی مطلوبہ مجرم ہیں اس لیے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی‘۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’وہ پاکستان کے ایک معتبر اور بڑے میڈیا ہاؤس کے سربراہ ہیں جو نیب کے ساتھ مکمل تعاون کررہے تھے اور یہ شکایت کی تصدیق کے لیے محض دوسرا طلبی کا نوٹس تھا اور کارروائی نہ تو تحقیقات اور نہ ہی تفتیش میں داخل ہوئی تھی‘۔

کورونا وائرس: اسٹیٹ بینک نے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن چارجز ختم کردیے

وزارت صنعت نے کرشنگ سیزن میں چینی درآمد کرنے کی درخواست واپس لے لی

کورونا وائرس: گلوکاروں کی مداحوں کیلئے سوشل میڈیا پر لائیو پرفارمنس