پاکستان

پاکستانی جامعات کا کارنامہ، کورونا ٹیسٹ کی سستی ترین کٹس تیار

نسٹ نے اس مشکل میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹ تیار کرکے مہنگی کٹوں کی درآمد میں لگنے والے پیسے بچائیں ہیں۔

آج کل ہر طرف کورونا وائرس کے شور سے افراتفری کا سماں ہے۔ خبروں پر نظر دوڑائیں تو سرخیوں میں "کورونا وائرس" کا نام نہ ہو ایسا ممکن نہیں۔

دنیا کہ بیشتر ممالک میں اسکول، کالجز، یونیورسٹیز، بازار، سنیما، وغیرہ بند ہیں اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ بچے اسے بہار کی چھٹیاں سمجھ کر موج کررہے جبکہ گھر کے بڑے اور پیشہ ور لوگ اس فکر میں مبتلا ہیں کہ حالات بہتر نہ ہوئے تو گھر کیسے چلے گا؟

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں کی فوج اس وائرس سے لڑنے میں مصروف ہے جبکہ سائنسدان اس نودریافت وبا کے بارے میں تحقیق کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ہونہار سائنسدان کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے استعمال ہونے والی "سستی" کٹ بنا چکے ہیں۔

10 مارچ 2020 کو نیشنل یونیورسٹی اف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) نے اعلان کیا کہ عطا الرحمٰن اسکول اف اپلائڈ بائیوسائنسز کے سائنسدانوں نے ووہان انسٹیٹیوٹ اف وائرالوجی (چین)، جرمن سینٹر فار انفیکشن ریسرچ (جرمن)، کولمبیا یونیورسٹی (امریکا) اور آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ اف پیتھالوجی (راولپنڈی) کے اشتراک سے کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹ تیار کرلی ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کٹ ان کٹوں سے سستی ہے جو پاکستان چین سے درآمد کررہا ہے۔ چین سے درآمد شدہ ایک کٹ کی قیمت تقریباً 8 ہزار روپے ہے جبکہ نسٹ کے سائنسدانوں کی بنائی ہوئی کٹ کی قیمت تقریباً 2 ہزارروپے بتائی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس کے خلاف ویکسین کی پہلی بار انسانوں پر آزمائش شروع

نسٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر انیلا جاوید اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر علی زوہیب نے اس مشکل میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹ تیار کرکے نہ صرف انسانیات کی خدمات میں اپنا حصّہ ڈالا ہے بلکہ ملک کے لیے سستی کٹیں بناکر مہنگی کٹوں کی درآمد میں لگنے والے پیسے بھی بچائے ہیں۔

اس سے پہلے رواں ماہ پاکستان کے وزیر سائنس فواد چوہدری نے یو کے پاکستان سائنس انوویشن گلوبل سائنس کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں پاکستانی یونیورسٹیز میں ہونے والی تحقیق کے بارے میں دنیا بھر سے آئے 70 سے زائد ماہرین اور سائنسدانوں کو بتایا کہ نسٹ کے سائنسدانوں نے لوگوں میں کورونا وائرس کی بروقت تشخیص کے لیے کٹ تیار کی ہے جس کی قیمت چین سے منگوائی گئی کٹوں سے ایک چوتھائی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ کامسٹ یونیورسٹی کے تحقیق دانوں نے مصنوعی جلد بنائی ہے جو کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے خوش آئند بات ہے۔

ابھی نسٹ سے خبر آئی ہی تھی کہ 16 مارچ 2020 کو پنجاب یونیورسٹی کے سینٹر اف ایکسیلنس ان مالیکیولر بائیولوجی سے بھی خبر آگئی کہ پروفیسر ڈاکٹر ادریس اور ان کی ٹیم نے نسٹ کی تیار کردہ کورونا وائرس کٹ سے بھی سستی کٹ تیار کرلی ہے۔

یہ خبر بہت حیرت انگیز تھی کیونکہ اب تو یوں لگنے لگا ہے کہ جیسے "کون سب سے سستی کورونا وائرس کٹ بنائے گا؟" کا مقابلہ شروع ہوگیا ہو۔

ملک میں جہاں حکومتی نظام سے لے کر تعلیمی نظام تک کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے وہاں ایسے 'سائنسی' مقابلے ہونا اچھی بات ہے کیونکہ آج کے دور میں ملکی ترقی کے لیے سائنسی ترقی لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپ اب کورونا وائرس کی وبا کا نیا مرکز ہے، عالمی ادارہ صحت

ڈاکٹر ادریس نے بتایا کہ اس کٹ میں پولیمریز چین ریکٹشن کے ذریعے بیماری کی تشخیص کی جاتی ہے۔ سائنسی اصطلاح میں پولیمریز چین ریکٹشن ایسا کیمیائی عمل ہوتا ہے جس میں خلیے کی کاپی کی جاتی ہے جس سے ان کی تعداد اتنی بڑھ جاتی ہے جو تشخیص کے قابل ہو۔

کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے مریض کے حلق اور ناک سے بلغم کا نمونہ لیا جاتا ہے جسے لیبارٹری میں پولیمریز چین ریکٹشن کے ذریعے زیادہ کرکے وائرس کے ہونے یا نہ ہونے کا بتایا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی اس ٹیم کا دعویٰ ہے کہ نسٹ کی کٹ 2 ہزار روپے کی تھی جبکہ انہوں نے جو کٹ بنائی ہے وہ صرف 500 روپے کی ہے (یعنی درآمد شدہ چینی کٹوں سے سولہ گناہ سستی)۔

یونیورسٹی کے ڈاکٹر ادریس نے بتایا کہ اگر حکومت کیمیکلز کے لیے فنڈز دے تو 500 روپے کی ہزاروں کٹس تیار کی جاسکتی ہیں۔

اس ہنگامی صورتحال میں جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے اور پاکستانی سائنسدانوں کی قابل تحسین کاوشوں سے سستی کٹس تیار کرلی گئی ہیں وہیں کورونا وائرس سے متعلق ہمارے عوام کا غیر ذمہ دارانہ رویہ انتہائی غیر مناسب ہے۔

کورونا پر مختلف میمز بناکر، ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے ہماری صرف جگ ہنسائی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ حکومت اور سائنسی ماہرین کی باتوں کو سنجیدگی سے سمجھا اور مانا جائے کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو آج اگر اس وائرس سے متبلا افراد کی تعداد چند سو ہے تو کل وہ ہزاروں میں بھی ہوسکتی ہے۔


سید منیب علی نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائیٹر ہیں اور ان کی کتاب کائنات – ایک راز اردو سائنس بورڈ نے شائع کردی ہے۔ آپ اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے۔ان سے muneeb227@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @muneeb227518

کورونا وائرس سے تحفظ پر پھیلنے والے ابہام اور ان کی حقیقت

کورونا وائرس کے علاج کے لیے مؤثر دوا دریافت؟

مختلف ممالک میں کورونا کی تیز ترین تشخیص کرنے والی کٹس کی تیاری