چین میں کورونا وائرس کا سامنا کرنے والے پاکستانی نے کیا کچھ دیکھا؟
آج جہاں باقی دنیا کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ پر ضابطے لانے کی کوششوں میں ہلکان نظر آ رہی ہے وہیں دنیا کا پہلا ’ایپی سینٹر‘ بننے والے شہر ووہان سے مثبت خبریں آرہی ہیں۔ ’جینگ زو‘ ووہان سے منسلک ایک شہر ہے۔ وہاں کی تازہ ترین صورتحال جاننے کے لیے پاکستانی طالب علم ’شہیر علی ابڑو’ سے رابطہ ہوا تو انہوں نے کچھ دلچسپ باتیں بتائیں۔
شہیر حیدرآباد کے رہائشی ہیں اور پچھلے 4 سال سے چین میں ہیں۔ شہیر ’ینگٹ ذی یونیورسٹی‘ میں میڈیکل کے آخری سال کے طالب علم ہیں۔
ہمیں شہیر ابڑو نے ووہان کی تازہ ترین صورتحال کے ساتھ اس موذی مرض پر قابو پانے کے لیے چین کے کارآمد اقدامات سے بھی آگاہ کیا۔ آئیں شہیر کی مدد سے جانیں کہ ’لاک ڈاون‘ میں زندگی گزارنے کا تجربہ کیسا رہا؟ اور ’سیلف آئیسو لیشن‘ یعنی خود ساختہ قیدِ تنہائی کیا ہوتی ہے؟ ساتھ ہی یہ بھی جانیں کہ اب وہاں کیا صورتحال ہے اور ان شہروں میں زندگی بہتری کی طرف کس طرح بڑھ رہی ہے؟
ووہان، قیدِ تنہائی سے نکلتا ہوا شہر
ووہان شہر میں کورونا وائرس کے جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ پچھلے 2 ماہ سے خبروں کی شہہ سرخیوں میں رہنے والا شہر ’ووہان’ موت کا شہر بن گیا تھا لیکن 16مارچ کے دن ووہان شہر میں کورونا کا صرف ایک مریض سامنے آیا اور پورے چین میں اس وائرس کے سبب جان کی بازی ہارنے والوں کی تعداد 13 تک محدود ہوگئی۔ یقیناً ابھی اس مرض پر مکمل قابو نہیں پایا جاسکا ہے لیکن عمومی صورتحال بہتر ہوتی نظر آرہی ہے۔
شہیر علی ابڑو کے مطابق اب انہیں باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ، ’آج صبح (17 مارچ) جب میں اپنی یونیورسٹی کے لیے ہوسٹل سے نکلا تو ووہان اور اس سے منسلک شہر میں زندگی رواں دواں ہوتی نظر آئی۔ جن سڑکوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا وہ راستے کھلے نظر آئے۔ سڑکوں پر بہت گاڑیاں نہ سہی لیکن میٹرو بس سروس فعال نظر آرہی ہے اور انٹر سٹی بسوں نے بھی چلنا شروع کردیا ہے۔ یعنی قیدِ تنہائی کے شکار شہر کی چہل پہل اب بحال ہونا شروع ہوچکی ہے۔
’اس کے علاوہ یونیورسٹیاں مکمل طور پر کھل چکی ہیں اور اسکول کالج بھی آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔ جبکہ وہاں کے لوگ بھی ضروریاتِ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ ہاں لیکن یہ بتانا بھی اہم ہے کہ اس چہل پہل میں لوگوں نے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑا، یہی وجہ ہے کہ کئی چہروں پر ماسک چڑھے نظر آئے۔ تاہم مجموعی صورتحال بہتر اور زندگی بحالی ہوتی نظر آرہی ہے۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو شہر سوگیا تھا وہ اب جاگنے لگا ہے۔‘
جب ووہان شہر میں کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا
شہیر نے بتایا کہ ’دسمبر کے سرد ترین دن تھے اور یہاں سردیوں کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ لوگ چین کے نئے قمری سال کی گہما گہمی اور چھٹیوں کے مزے لوٹ رہے تھے۔ عین اس بیچ کورونا وائرس کی عفریت نے اپنا سر اٹھایا‘۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ، ’جب ابتدائی خبریں آنا شروع ہوئیں تب مجھے اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہوا کیونکہ ہم نے کبھی وبائی امراض کو اس شدت سے پھیلتے نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ ہم بے فکر اور پُرسکون تھے اور سیر و سیاحت کا پروگرام بنارہے تھے۔ ہمیں لگا کہ جلد ہی اس مرض پر قابو پالیا جائے گا۔ ان دنوں ہمارا رویہ ایسا تھا جیسا آج پاکستان میں لوگوں کا ہے۔ اسکولوں کی چھٹیاں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے دی گئی تھیں لیکن لوگ پکنک منا رہے تھے۔ یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس وقت کورونا وائرس کو لے کر ہم نے بڑی ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تھا‘۔
شہیر ابڑو کہتے ہیں کہ 2020ء کے پہلے مہینے میں صورتحال اس وقت خراب ہونا شروع ہوئی جب یہ مرض تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع ہوا، یہاں تک کہ حکام نے 14جنوری کو ووہان شہر کو مکمل طور پر لاک ڈاون کردیا۔
چینی حکومت کے بروقت اقدامات اور فیصلے
شہیر کہتے ہیں کہ یہاں حکومتی اداروں اور رضا کاروں کا نظم وضبط اور ٹیم ورک نظر آتا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی اور اموات میں بھی خاصا اضافہ دیکھا جارہا تھا۔ اس ہنگامی صورتحال کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ہر فرد کی صحت کو اہمیت دی اور ہر شخص پر کڑی نگاہ رکھی۔
’میرے جن دوستوں نے ووہان اور آس پاس کے علاقوں میں چند دن قیام کیا تھا انہیں طبّی تنہائی یعنی ‘قرنطینہ‘ میں رکھا گیا جبکہ وہ لوگ جو صرف کچھ دیر کے لیے ہی وہاں گئے یا گزر ہوا تھا انہیں بھی ان کے کمروں سے نکال کر الگ ’آئیسولیٹ‘ کیا گیا۔ ان سب کے میڈیکل ٹیسٹ لیے جارہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی دیکھ بھال ٹھیک اسی طرح کی جا رہی تھی جیسے کسی کورونا وائرس سے متاثرہ شخص کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم جو غیر ملکی طلبہ تھے وہ اپنے کمروں تک محدود تھے۔ ہم میں سے کسی کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔‘
آپ نے گھبرانا نہیں ہے
شہیر بتاتے ہیں کہ، ’ہم ان حالات کو دیکھ کر گھبرا چکے تھے۔ ہم اکیلا پن، گھبراہٹ اور ذہنی الجھن محسوس کر رہے تھے۔ آج کل جو پاکستان میں ہورہا وہ اب باہر بیٹھ کر سمجھ آرہا ہے۔ افراتفری اور خوف کا ماحول تھا لیکن میں آج کہہ سکتا ہوں کہ ’گھبرانا نہیں ہے‘ کیونکہ گھبراہٹ کا شکار لوگ زیادہ غلطیاں کرتے ہیں اور اس مرض میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ حوصلے اور ہمت سے مشکل حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
’پاکستان میں موجود ہمارے گھر والے چاہتے تھے کہ ہم فوراً وہاں سے نکل آئیں۔ جبکہ ہم جانتے تھے کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ جنوری تک کورونا ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ ووہان ہی نہیں بلکہ پورے صوبے کے لوگوں نے حفاظتی اقدامات کے تحت خود کو لاک ڈاون کرلیا تھا۔ لوگ خوفزدہ تھے کیونکہ ہوبے کے ہر شہر اور قصبے میں وائرس پھیل چکا تھا، پھر کچھ دنوں بعد ووہان ہی نہیں بلکہ تقریباً پورا چین ہی لاک ڈاؤن ہوا۔ چینی حکومت نے اپنے عوام کو ہی تحفظ فراہم نہیں کیا بلکہ پاکستانی طلبہ کو بھی سہولت پہچانے کی کوشش کی۔ ہر علاقے کا انتظام وہاں کی بلدیہ کے پاس تھا۔‘
قرنطینہ کیوں ضروری ہے؟
شہیر پاکستانیوں کی موجودہ ذہنی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں لوگ قرنطینہ مراکز سے خائف نظر آتے ہیں۔ لہٰذا انتظامیہ اور طبّی عملے کو چاہیے کہ وہ عوام تک اس کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کریں۔ لوگ ابھی پوری طرح اس مرض سے آگاہ نہیں۔ لیکن یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ لوگ آگاہ رہتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں‘۔
’مرض کو روکنے کا سب سے مؤثر ذریعہ وائرس زدہ افراد کی نشاندہی ہے۔ چینی حکام نے ہر ممکن کوشش کی کہ ووہان شہر سے گزرنے والے ہر فرد کو ’قرنطینہ‘ یونٹ میں نظروں کے سامنے رکھا جائے اور ان کو روزانہ کی بنیادوں پر طبّی معائنے سے گزارا جائے۔ اس معاملے پر میں سمجھتا ہوں کہ حکومتِ سندھ نے مؤثر حکمتِ عملی اپنائی ہے۔‘
لاک ڈاؤن یا آئیسو لیشن کا مطلب کیا ہے؟
شہیر کہتے ہیں کہ، ’اگر پاکستان میں لاک ڈاؤن کیا جاتا ہے تو آپ لوگوں کو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ اس دوران انہیں دی جانے والی تمام ہدایتوں پر سختی کے ساتھ عمل کریں۔ یہ عمل آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی ضروری ہے۔
’ووہان میں شہر سے باہر جانے والے تمام راستے، بسیں، ٹرین، میٹرو اسٹیشن، ہوائی اڈے اور فری ویز بند تھے یعنی شہر سے باہر جانے کی کوئی سبیل نہیں تھی۔ یہ تمام اقدامات نہایت ہنگامی صورتحال کو واضح کر رہے تھے۔ اب مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچلا ہے کہ یہ کس قدر ضروری فیصلے تھے جو چین کی حکومت نے بروقت لیے۔ اس سے پہلے یہاں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر تیزی سے پھیلتے ہوئے مرض اور اموات کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ہمیں بھی ’سیلف آئیسولیشن‘ میں چلے جانے کا کہا گیا۔ ہم نے کچھ ڈنڈے کے زور پر اور کچھ بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس ہدایت پر عمل کیا۔ ہمیں سختی سے ہدایت تھی کہ ہم اپنے ہاسٹل کا کمرہ نہ چھوڑیں اور فوری مدد کے لیے ’ہاٹ لائن‘ پر کال کریں۔ ہماری نقل و حرکت پر مکمل پابندی تھی۔ روزانہ اسٹاف ہمارا طبّی معائنہ کرتا۔ میں ہم وطنوں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ بھی اپنا خیال رکھیں، گھر سے باہر نہ نکلیں اور اپنا معائنہ کرتے رہیں۔‘
’جو لوگ پہلے ہی اکیلے ہوں، وہ آئیسولیشن کے حالات میں نفسیاتی مسائل کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ قیدِ تنہائی آسان نہیں بلکہ سزا کے ہم پلہ ہے۔ یقیناً اس میں اچھا بھلا انسان بھی الجھن محسوس کرے گا۔ آپ خود کو ایک کمرے تک محدود کرچکے ہیں۔ یہ وقت کیسے گزارنا ہے۔ یہ آپ پر ہے۔ خود کو مصروف رکھیں، دوسرے لوگوں سے موبائل، ٹیلی فون اور ای میل سے رابطے میں رہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پڑوس میں کون ہے اور وہاں کیا صورتحال ہے۔‘
اپنی صحت اور نگہداشت کا انتظام سب سے پہلے
شہیر کہتے ہیں کہ ’ویسے یہ ہے تو ذرا غلط بات لیکن ہنگامی حالات میں ’سب سے پہلے میں‘ کا نعرہ ضروری ہے۔ اپنی حفاظت کریں۔ ہم نے اور ووہان کے باسیوں نے حکومتی عہدیداروں کی ہدایت اور احکامات پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ نہایت ہنگامی وجوہات کے علاوہ ہم کمرے سے باہر نہیں نکلے۔ پورے ہفتے میں صرف ایک شخص اجازت نامے کے ساتھ ہاسٹل سے باہر نکل سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ چین کے عوام نے بھی اس کو حالتِ جنگ سے تعبیر کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالا۔ مثبت سوچ سے ہی آپ اس وبائی صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ حکومت نے بہت سے علاقوں میں ہنگامی احکامات جاری کیے اور لوگوں نے اس کا احترام کیا۔ لوگوں نے غیر ضروری باہر جانے سے اجتناب کیا اور وہ انتہائی ہنگامی صورتحال میں ہی گھر سے باہر نکلے۔ یوں کورونا وائرس پر قابو پانے میں زبردست مدد ملی‘۔
’بحیثیت فردِ واحد ہم اپنا حصہ اس طرح ڈال سکتے ہیں کہ ہم خود کو گھر تک محدود کرلیں۔ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ اپنی بھی اور گھر کی بھی۔ ہاتھ دھونا سب سے آسان اور مؤثر ترین حفاظتی تدبیر ہے۔ اپنا اور گھر والوں کا خیال رکھیں۔‘
کھانے پینے کی کیا مشکلات رہیں؟
جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہم جیسے غیر ملکی طلبہ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارا یہ عام روٹین رہا ہے کہ کھانے پینے کے لیے مقامی دکانوں یا ریسٹورینٹس پر انحصار کرتے تھے اور گھر میں ہمارے پاس کھانے پینے کا معقول انتظام نہیں ہوتا۔ جب اس بیماری کی خبریں موصول ہونا شروع ہوئیں تو ہم نے اس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا اور یوں لاک ڈاؤن کے بعد اس حوالے سے بہت مشکلات کا شکار رہے۔
اس کے علاوہ چین میں نلوں کا پانی پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا، لیکن جب کوئی اور آپشن نہیں بچا تو پھر ہم نے ایک ہفتہ وہی پانی استعمال کیا۔ لیکن پھر پاکستانی سفارتخانہ ہماری مدد کو آیا اور پھر ہماری یہ مشکلات دُور ہوگئیں۔
پاکستانی حکومت کے فوری کرنے کے کام
شہیر کہتے ہیں کہ، ’ہمیں اس مرض پر قابو پانے کے لیے چین کی حکمتِ عملی اپنانی ہوں گی۔ اب چونکہ چین کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے اور مرض بھی سنگین صورتحال اختیار کرگیا تھا اس لیے چین میں کچھ بڑے فیصلے ہوئے جن سے بہت فائدہ ہوا۔
’ہم نے دیکھا کہ اگر کسی شہری نے بخار یا کورونا وائرس کی علامات کی شکایت کی تو ایمبولینس اور ڈاکٹر خود اس کے دروازے تک پہنچے۔ مریض کو خود سے ہسپتال پہنچنے کے لیے نہیں چھوڑ دیا گیا۔ یہ ایک بہتر انتظام ہے کیونکہ اس طرح صرف کورونا کے مریض ہی مخصوص ہسپتالوں تک پہنچائے گئے اور غیر متاثرہ مریضوں کا رش کم ہوگیا۔ اس لیے اگر پاکستان میں کسی کے گھر میں سامان ختم ہوجائے تو سامان دروازے تک مہیا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے اور عمر رسیدہ افراد کا طبّی اور ہر لحاظ سے خاص خیال رکھا جائے۔ تھوڑی بہت ادویات، جیسے نزلہ زکام اور عمومی بخار کی گولیاں گھر پر دستیاب ہوں یا انہیں گھر بیٹھے فراہم کی جائیں۔ ان کاموں کو انجام دینے کے لیے رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دی جاسکتی ہیں اور ان میں چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں دی جاسکتی ہیں۔ حکومت کا کام ہے کہ مشکل کی گھڑی میں مختلف چیزوں کی قیمتوں کو بڑھنے نہ دے اور بروقت لوگوں کو ضروری اشیا دستیاب ہوں۔‘
شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔