'حکومت نے کورونا سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا، ہمیں کہہ دیا عدالتیں کام روک دیں'
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ارشد ملک کو فرائض جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سماعت کی۔
دوران سماعت ملک میں کورونا وائرس کا ذکر بھی آیا جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ جو کورونا وائرس ایئرپورٹ سے ملک میں آیا، یہ حکومت اور پی آئی اے کی نااہلی کی وجہ سے ہوا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ہر جگہ ملک بھر میں کورونا کی بات ہورہی ہے، اگر سیکیورٹی کا یہ حال رہا تو پتہ نہیں مزید کون سی بیماریاں ملک میں آجائے گی۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے حکومت نے کورونا کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کیا اور ہمیں کہہ دیا کہ عدالتیں کام روک دیں، ہم تو عدالتی کام کے لیے یہاں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: بہتر ہے پی آئی اے کو پاکستان ایئرفورس کے حوالے کردیں، چیف جسٹس
اس موقع پر کیس سے متعلق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایئرمارشل ارشد ملک اچھے اور قابل انسان ہیں، 9 برسوں میں پی آئی اے کے 12سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی آئی اے کے بارے میں کوئی ایک چیز بتائیں جو اچھی ہو، پی آئی اے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے کیا اس کو بند کریں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی ایئرپورٹ پر خستہ اور خراب حالات میں جہاز کھڑے ہوئے ہیں، اگر خدانخواستہ حادثہ ہو گیا تو لوگوں کا کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایئرپورٹ کی طرف گند نظر آتا ہے، ہر خراب چیز ایئرپورٹ پر نظر آتی ہے، پی آئی اے، اے ایس ایف اور کسٹمز والے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں کوئی پروفیشنلزم نظر نہیں آتا، ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں ادارے کا مستقل 3 سال کے لیے سربراہ چاہیے جو ادارے کو بہتر کرسکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اس ادارے میں ایک حکومت اپنے بندے بھرتی کرتی ہے اور دوسری آکر نکال دیتی ہے، نکالے جانے والے بعد میں ترقی اور رقوم کا دعوی کرتے ہیں، ان کو پھر تیسری حکومت لاکھوں روپے دے دیتی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم اپنے گھر میں ایک ملازم اپنی بساط سے زیادہ نہیں رکھتے، اگر گھر کا ملازم ایک گلاس پانی دیر سے پہنچاتا ہے تو اس کو نکال دیتے ہیں، پی آئی اے تو ہمارا ادارہ ہے اس کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی آئی اے کے ملازمین نے ایک سابق سربراہ کو واش روم میں بند کردیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی ایک ادارہ ہیں، لوگوں کے مسائل حل کرنا ہمارا کام ہے، پی آئی اے کو کس طرح چلانا ہے ہمیں پتہ ہے، پی آئی اے کے علاوہ بھی کمپنیاں اچھا کام کررہی ہیں تاہم اگر کوئی بھی ادارہ یونین کے ہاتھوں میں دیں گے تو وہ ادارہ بند ہی ہوجائے گا، ان سب کا ذمہ دار پھر کون ہوگا۔
ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کچھ لوگ آتے ہیں تو سہولیات لے کر غائب ہوجاتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسٹیل مل کے حالات ہمارے سامنے ہیں، جس کی حالت خراب ہے، پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے، پورے پاکستان کو اس پر فخر ہے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے کچھ لوگوں کے خراب ہونے سے ادارہ خراب ہو گیا ہے، ادارے میں ایسے ملازمین بھی ہیں جو ایمانداری سے کام کررہے ہیں، ایک خاتون جیکولین کینیڈی نے پی آئی اے سے سفر کیا تو پھر ایئر لائن کی تعریف کی۔
اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ سابق وزیر اعظم لندن گئے تو پی آئی اے کا جہاز وہاں کھڑا رہا، انہیں کس نے ایسا کرنے کی اجازت دی، لندن میں طیارہ کس کے خرچ پر کھڑا رہا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جس نے گلگت گھومنا ہو تو وہ خاندان کے ساتھ جہاز لے کر چلا جاتا ہے، جس نے کہیں اور جانا ہو وہ جہاز کا رخ بدلوا دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی پی آئی اے کو منافع بخش ادارے بنانے کی ہدایت
بعد ازاں عدالت نے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو فرائض جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ وفاق نے قانونی طریقے سے ارشد ملک کو مقرر کیا جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
حکم میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ادارہ وینٹیلیٹر پر ہے اس لیے ارشد ملک کو کام کرنے دیا جائے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ارشد ملک قابل آدمی ہیں، وہ نتائج دیں گے۔
ساتھ ہی عدالت نے منیجمنٹ اور سی بی اے یونین سے ایک ماہ میں مستقل بزنس کا پلان طلب کرلیا اور سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔
پی آئی اے کے سی ای او کا معاملہ
خیال رہے کہ 31 دسمبر 2019 کو سندھ ہائی کورٹ نے قومی ایئر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی لگادی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے بھی فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔
علاوہ ازیں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو 22 جنوری کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا تھا۔
بعد ازاں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئرمارشل ارشد محمود نے اپنے خلاف سندھ ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
مذکورہ درخواست میں وفاق، کابینہ ڈویژن اور وزارت سول ایوی ایشن کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ انہیں عہدے پر بحال کیا جائے۔
واضح رہے کہ ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ اس عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد وار اسٹیڈیز سے متعلق تعلیم حاصل کی تاہم انہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن قوانین سے کچھ آگاہی نہیں ہے۔