کورونا وائرس: ہمارے لیے جانی سے زیادہ مالی مسائل کا سبب؟

ایک طرف جہاں چین کورونا وائرس پر قابو پانے کے بعد کسی حد تک سکون کا سانس لے رہا ہے، وہیں دوسری طرف ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کورونا وائرس کی وبا سے پریشان نظر آرہے ہیں اور صورتحال قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے بعد کئی ممالک نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات اٹھانا شروع کردیے ہیں۔
پاکستان میں بھی چند روز قبل تک صورتحال زیادہ تشویشناک نہیں تھی مگر وبائی پھیلاؤ میں رفتہ رفتہ تیزی آنے پر اب وفاقی اور صوبائی سطح پر افراتفری دکھائی دینے لگی ہے۔ جہاں ایک طرف وبا کے پھیلنے سے حکومت کے صحت عامہ کے بجٹ میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف معاشی سست روی سے حکومت کے حاصل کردہ معاشی اہداف میں کمزوری کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
جب اس وبائی مرض نے پاکستان میں اپنے اثرات دکھانے شروع کیے تو وزیرِاعظم پاکستان عمران خان نے عوام کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا۔ خیال یہ تھا کہ وہ قوم کو مستقبل سے متعلق کوئی لائحہ عمل دیں گے مگر انہوں نے ماہرِ طبیب کی طرح قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کورونا وائرس اصل میں ہے کیا اور یہ کیسے ہوتا ہے۔
انہوں نے اس خطاب میں کچھ اور باتیں بھی کیں جو کچھ اس طرح ہیں۔
- وزیرِاعظم نے یہ بات تسلیم کی کہ سال 2019ء پاکستان کی معیشت کے لیے مشکل سال تھا، جس میں معاشی سست روی اور بے روز گاری میں اضافہ ہوا ہے۔
- وزیرِاعظم نے ملک میں لاک ڈاون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم ایک طرف سے کورونا وائرس سے بچائیں گے اور دوسری طرف لوگ بھوک سے مرجائیں گے، ہمارے غریب لوگوں کا کیا بنے گا، لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے ہوں گے'۔
- وزیرِاعظم نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات پر نظر رکھنے کے لیے کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران آٹے اور چینی کی مہنگی قیمتوں کے باعث تنقید کا نشانہ بننے والے وزیرِاعظم عمران خان نے اس کمیٹی کو مہنگائی خصوصاً اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا ہے اور ساتھ ہی ذخیرہ اندوزوں کو بھی وارننگ دی ہے کہ اگر مصنوعی قلت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تو ریاست سخت طریقے سے نمٹے گی۔
اس خطاب میں صنعتی اور کاروباری برادری کو توقع تھی کہ وزیرِاعظم کسی قسم کے معاشی پیکج کا بھی اعلان کریں گے، مگر اس پیکج کو انہوں نے آئی ایم ایف سے منظوری ملنے تک مؤخر کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے بات کریں گے جبکہ منگل کی صبح امریکی خبر رساں ادارے نے عمران خان کا انٹرویو جاری کیا ہے جس میں وزیرِاعظم نے عالمی مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ملکوں کا قرض معاف کردیں۔
وزیرِاعظم کے خطاب اور انٹرویو سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اپنے معاشی فیصلے کرنے میں عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے یا حکم کا منتظر ہے۔ اس وقت حکومت اتنی بھی بااختیار نہیں ہے کہ عالمی فنڈ سے پوچھے بغیر اپنی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے اقدامات اٹھا سکے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو ابھی تک اس بات کا اندازہ بھی نہیں کہ سعودی عرب اور یورپ میں لاک ڈاؤن سے پاکستان کی ترسیلاتِ زر اور برآمدات سے حاصل ہونے والے زرِمبادلہ ذخائر میں کمی کا سامنا ہوگا۔
آئی ایم ایف نے کورونا وائرس سے متاثرہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کی مالی معاونت کے لیے 50 ارب ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ غریب ملکوں کے لیے 10 ارب ڈالر قرض کے لیے مختص کیے ہیں۔ آئی ایم ایف یہ قرض صفر شرح سود پر دے گا۔ اس حوالے سے اب تک آئی ایم ایف سے 20 ملکوں نے مالی معاونت کے لیے رابطہ کرلیا ہے۔ اگر پاکستان کو اس فنڈ سے فائدہ اٹھانا ہے تو قرضوں کی معافی کے بجائے ان بلا سود قرضوں کے حصول کے لیے پالیسی بنانی چاہیے۔
وزیرِاعظم نے جب قوم سے خطاب کیا، تو اس سے چند گھنٹے پہلے ہی سندھ کی صوبائی حکومت نے جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔
عارضی معاشی ری فنانس سہولت
ہاٹ منی کا معیشت سے اخراج
ہسپتالوں کے لیے سستے قرضے کی اسکیم
کورونا وائرس اور مقامی کاروبار پر اثرات
ہمارے خرچے کیسے پورے ہوں گے؟
یہ 15دن کی بات نہیں، کئی مہینوں کا دُکھ ہے
حکومت کے لیے معیشت 2 دھاری تلوار بن گئی
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔