وفاق ایوان ہائے تجارت و صنعت کے سابق نائب صدر مظہر اے ناصر کا کہنا ہے کہ ماضی میں جو لاک ڈاؤن مختلف سیاسی جماعتوں نے کیا تھا اس سے یہ لاک ڈاؤن کافی مختلف اور محدود ہے۔ تفریح، صنعت اور شاپنگ مالز تو بند ہیں لیکن باقی پوری معیشت کھلی ہے۔ صنعتوں میں کام جاری ہے۔ اس وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کی طرح یومیہ 100 ارب روپے کا معاشی نقصان ہوگا۔ ابھی صرف 25 فیصد معیشت بند ہے تو یومیہ نقصان بھی 25 سے 30 ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔
مظہر ناصر کا کہنا تھا کہ یومیہ اجرت والے محنت کش اس لاک ڈاؤن سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی فلاح اور انہیں روزگار یا مالی معاونت کے لیے ریاستی و کمیونٹی کی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔
ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے حکومتی شعبہ صحت کے اخراجات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف مریضوں کے لیے آئسولیشن وارڈز اور وہاں علاج معالجے کی سہولتوں کی فراہمی، مشتبہ افراد کے ٹیسٹ اور قرنطینہ کے لیے سہولیات کی فراہمی اور دیگر اقدامات کے لیے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف کاروبار کی بندش سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں گراوٹ، یومیہ کاروباری لین دین بند ہونے سے حکومت کو ملنے والے ٹیکسوں میں کمی کے بھی امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔
15 دن بندش سے حکومت کی ٹیکس وصولی میں کمی کے علاوہ ملک بھر میں مختلف مصنوعات کی سپلائی چین بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے، جس کے باعث ملک کے دیگر حصوں میں مختلف اشیا کی قلت پیدا ہونے کے علاوہ مقامی معیشت میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
اس وقت تصور کرلیں کہ کراچی کا 50 فیصد کاروبار بند ہے تو یومیہ کراچی شہر سے 15 سے 16 ارب روپے کا پیدواری نقصان ہورہا ہے۔ مگر اس نقصان کا اندازہ دستاویزی معیشت کا ہے کراچی کی غیر دستاویزی معیشت بھی بہت بڑی ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت میں سالانہ پیداوار یا جی ڈی پی کا حجم 300 ارب ڈالر ہے۔ اگر کراچی کی معیشت کو ملک کی مجموعی معیشت کا 25 فیصد بھی مان لیا جائے تو صرف کراچی شہر کی سالانہ پیداوار 75 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اگر اس کو یومیہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو یہ 20 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ بنے گا، اور اگر ڈالرز کو پاکستانی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں 32 سے 33 ارب روپے یومیہ کی معاشی سرگرمی ہوتی ہے
اس پورے عمل کے حوالے سے نہ تو وفاقی حکومت اور نہ ہی سندھ سمیت کسی صوبائی حکومت نے کسی معاشی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے۔ حکومتوں کو کثیر الجہتی اقدامات کرتے ہوئے نہ صرف کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے بلکہ اس سے معیشت پر پڑتے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے بھی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ حکومت امداد دینے والے اداروں سے معاونت کی کس قدر طلبگار ہیں یا پھر پاکستان اپنے قرضوں کو معاف کرانا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی معیشت میں وسائل کو متحرک کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے جس کے لیے پاکستان چین اقتصادی راہدری کے منصوبوں میں تیزی لانے کے علاوہ حکومت کو ترقیاتی منصوبوں پر اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا۔