پاکستان

سماجی رابطوں میں فاصلہ، کورونا وائرس سے بچنے میں کتنا مددگار؟

معاشرتی یا سماجی دوری ایسا احتیاطی قدم ہے جس کو اپنانے کا مشورہ عالمی سطح پر دیا جارہا ہے۔

نئے نوول کورونا وائرس سے بچنے کے لیے جن احتیاطی تدابیر پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے، ان میں ہاتھ دھونے اور چہرے کو چھونے سے گریز کے ساتھ ساتھ سوشل ڈسٹنسنگ یا سماجی رابطوں میں فاصلہ قابل ذکر ہے۔

مگر سوشل ڈیسٹینسنگ یا سماجی رابطوں میں فاصلے سے کیا مراد ہے، کیا آپ کو معلوم ہے؟

اس اصطلاح کا حوالہ عام طور پر وبائی امراض کے ماہرین لوگوں کے درمیان قریبی تعلق کی شرح میں کمی لانے کی شعوری کوششوں کے لیے دیتے ہیں تاکہ برادری کی سطح پر وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے ۔

آسان الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ سماجی تعلق کو محدود کیا جائے، چاہے آپ خود کو سوفیصد تندرست ہی کیوں نہ تصور کریں ، تاکہ برادری کی سطح پر وائرس کے پھیلنے کا امکان کم از کم کیا جاسکے ۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے کیسز میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں لوگوں کے اندر ناصرف اس سے بچنے بلکہ اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بھی فکرمندی بڑھ رہی ہے ۔

سماجی فاصلہ ایسا احتیاطی قدم ہے جس کو اپنانے کا مشورہ عالمی رہنمائوں سے لے کر عالمی ادارہ صحت کی جانب سے دیا جارہا ہے ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ ایک فرد اپنے اور دوسرے فرد جو کھانس یا چھینک رہا ہو، کے درمیان کم از کم ایک میٹر (3 فٹ) کا فاصلہ رکھے ۔

اس میں ہجوم سے گریز، چھوٹے عوامی مقامات جیسے سنیام ریسٹورنٹس اور تھیٹرز میں جانے سے بچنے جیسی چیزیں بھی شامل ہیں ۔

اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود سوالات کے جوابات آپ درج ذیل جان سکتے ہیں ۔

کیا مجھے دفتر جانا چاہیے؟

اس حوالے سے اپنے منیجر/مالک کے منصوبے پر عمل کریں اور اگر اب تک اس کو شیئر نہیں کیا گیا تو آپ اسے بنانے کا مشورہ دے سکتے ہیں ۔

اس وقت پاکستانی حکومت کی جانب سے دفاتر کی بندش اور ملازمین کو گھروں سے کام کرنے کی ہدایت جاری نہیں کی گئی، مگر ایسا پہلا قدم خیبرپختونخوا میں لیا گیا ہے جہاں گزشتہ روز 15 کیسز کی تصدیق کے بعد، 50 سال یا اس سے زائد عمر کے سرکاری ملازمین کو 15 دن کی چھٹی دے دی گئی ہے ۔

تاہم کمپنیاں اس حوالے سے مختلف نوعیت کے منصوبوں پر عمل کرسکتی ہیں ، کچھ کی جانب سے گھر سے کام کرنے کا کہا جاسکتا ہے، دیگر کی جانب سے مختلف اصولوں جیسے ہاتھوں کی صفائی، ہینڈ سینی ٹائزرز کی تنصیب، غیرمتعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی اور دیگر اقدامات پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے ۔

امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اور آسٹریلین محکمہ صحت نے کاروباری اداروں کے لیے ان نکات پر زور دیا ہے:

بیمار ملازمین کو اپنے گھر میں رہنے کے لیے زور دینا

بیمار ملازمین کو آئسولیٹ کرنا

بیمار ہونے پر گھر میں رہنے، تمام ملازمین کے لیے ہاتھوں کی صفائی اور تنفس کے آداب (تھوکنے سے گریز وغیرہ)

سفر کے دوران بیمار یا عارضی اسائنمنٹ کے دوران بیمار ہونے والے ملازمین کو اپنی کیفیت سے سپروائرز کو آگاہ کرنے کی ہدایت اور ضرورت پڑنے پر طبی امداد کے لیے رجوع کرنے پر زور دینا

مصافحہ کرنے سے گریز

گھریلو ملازمین کو کیسے آگاہ کریں؟

اگر آپ کے گھر میں ملازمین کام کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ انہیں وبا ، اس کے پھیلنے اور سب سے ضروری احتیاطی تدابیر سے آگاہی ہو، تاکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھ سکیں ۔

جناح پوسٹ میڈیکل کالج کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہر ایک کی طرح گھریلو ملازمین بھی خوفزدہ ہوسکتے ہیں اور انہیں ضروری احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جانا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا اس حوالے سے معلومات کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے اور جب کوئی پڑھا لکھا نہ بھی تو بھی اس کے ساتھ تصاویر شیئر کرکے شعور اجاگر کیا جاسکتا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر گھریلو ملازمین پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں تو گھر میں داخل ہوتے ہی ہاتھوں کو دھونا سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیمار ملازمین کو گھر پر رہنے کا مشورہ دینا چاہیے جبکہ فلو یا وائرس کی دیگر علامات نظر آنے پر انہیں خود کو آئسولیٹ کرنا چاہیے ۔

بطور مالک یہ آپ کا فرض ہے کہ اپنے ملازمین کے لیے یہ سمجھنا یقینی بنائیں کہ انہیں اپنے ہاتھ دھونے کی کیوں ضرورت ہے اور صابن سمیت دیگر اشیا فراہم کی جانی چاہیے، ان کے سامنے وضاحت کرنا چاہیے کہ چہرے کو چھونے سے گریز کیوں ضروری ہے ۔ آسان الفاظ میں سماجی فاصلے اور خودساختہ آئسولیشن کی وضاحت کرنی چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ کہاں جانا چاہیے اور کہاں سے مفت ٹیسٹ کرایا جاسکتا ہے ۔

پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر کیا کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر سیمی جمالی نے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے افراد کے لیے مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو دھونے کے ساتھ صفائی پر توجہ دیں ۔

جس کے لیے چند اقدامات مددگار ثابت ہوسکتے ہیں :

ہینڈ سینی ٹائزرز، صاف وائپس اور جراثیم کش (disinfectants) کا استعمال سفر کے دوران کریں تاکہ جراثیم پھیل نہ سکیں

لوگوں کے قریب جانے سے گریز کریں

اگر گاڑی میں لوگ زیادہ ہیں تو ماسک پہن لیں خاص طور پر اگر آپ کو کھانسی یا چھینکوں کا سامنا ہو

کیا باہر جاکر ریسٹورنٹ میں کھانا کھا سکتے ہیں؟

کیا عوامی مقامات جیسے ریسٹورنٹس میں جانے کا خیال اچھا ہے تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ آپ کو ایسا کرنے پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے لوگوں کو احتیاطی اقدامات اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے سماجی میل جول اور ملاقاتوں سے گریز کرنے کا کہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں لوگوں کا یہ رویہ ناقابل قبول ہے کہ ریسٹورنٹس، ہوٹلوں اور چائے خانوں میں جمع ہورہے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو سیلف آئسولیشن کا مشورہ دیتے ہوئے انتباہ کیا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان مقامات کو بند کردیا جائے گا ۔

ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا کے دوران آپ باہر کھانے جانے کا فیصلہ کرنا چاہیے یا نہیں ، اس کا انحصار درج ذیل عناصر پر ہوسکتا ہے:

آپ کہاں رہ رہے ہیں اوروہاں وائرس کے پھیلائو کی صورتحال کیا ہے

آپ کہاں کھانے کے لیے جارہے ہیں، وہاں کتنے لوگ موجود ہیں؟ وہاں ہوا کے اخراج کا نظام کتنا اچھا ہے یا آس پاس کتنے لوگ گھوم رہے ہیں

آپ کی عمر، وائرس کا سامنا ہونے یا خطرے جیسے امکانات

کھانا کیسے تیار اور پیش کیا جاتا ہے

امراض کے حوالے سے آپ کی اپنی کمزوریاں، رہائش اور ریسٹورنٹ کا مقام

آپ کے جانے کا فیصلہ اہمیت رکھتا ہے مزید یہ کہ برادری کے لیے آپ کی ذمہ داری بھی اہمیت رکھتی ہے

جون ہوپکنز سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی کے سنیئر اسکالر کرسٹل واٹسن کے مطابق اس کا انحصار مقامی تناظر پر ہوتا ہے ' اگر آپ کے ارگرد مرض وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے تو میرے خیال میں لوگوں کو گھروں پر رہنا چاہیے اور پرہجوم جگہوں پر نہیں جانا چاہیے'

پینسلوانیا یونیورسٹی کے سینٹر فار پبلک ہیلتھ انیشیٹیو کے ڈائریکٹر آف ریسرچ کے مطاق لوگوں کو عوامی مقامات پر جمع ہونے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ چین اور جنوبی کوریا جیسے ممالک میں اس طرح وائرس کو پھیلنے سے روکا گیا ہے،۔

آرڈر کرنا ٹھیک ہے؟

ہاں کھانا آرڈر کیا جاسکتا ہے مگر ڈبا لینے کے بعد ہاتھوں کو دھونا بہتر احتیاط ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ملکین انسٹیٹوٹ اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ڈاکٹر اور پروفیسر کے مطابق طبی حکام کی جانب سے ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا کہ کورونا وائرس غذا کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوسکتا ہے، یہ نظام تنفس کا مرض ہے جو منہ سے خارج ہونے والے ذرات سے پھیلتا ہے۔

تو باہر جاکر کھانے کی بجائے ان کو منگوانا بہر ہے؟ اس سے وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ تو کم ہوسکتا ہے مگر جو فرد کھانے کو لائے گا وہ اسے پیکج پر منتقل کرسکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سی ڈی سی نے زیادہ خطرے سے دوچار افراد کے لیے جو گائیڈلائنز تیار کی ہیں ان میں عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنا کھانا گھر سے ساتھ لائیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ آرڈر کرنے پرجو اسے لے کر آئے اس کی حالت پر بھی غور کریں۔

آسان الفاظ میں آج کل کھانے کے لیے باہر جانے یا منگوانے پرسمجھ وجھ سے کام لیں، مشاہدہ کریں اور سوالات پوچھیں۔

یعنی کھانے کے ڈبے کو تلف کریں، غذا کو صاف برتنوں میں منتقل کریں اور دھلے ہوئے چمچ استعمال کریں۔

کیا گھروالوں اور دوستوں سے مل سکتا ہوں؟

اس کا انحصار آپ کی صحت اور وائرس کی علامات ہونے یا نہ ہونے پر ہوتا ہے، خصوصاً اس وقت جب کسی ایسے فرد سے ملیں جس کے لیے خطرہ زیادہ ہو۔ اس کا انحصار لوگوں کی تعداد پر بھی ہوسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق 'کم تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا اس وقت ٹھیک ہے جب کسی میں علامات ظاہر نہ ہوئی ہوں، اگر کوئی بیمار نظر آئے تو آپ کو اکٹھے ہونے سے گریز کرنا چاہیے'۔

یالے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے وبائی امراض کے شعبے کے سربراہ البرٹ کو کا کہنا ہے کہ ایسی ملاقاتوں کے دوران اچھی عوامی صحت کی مشق ضرور کرنی چاہیے۔

تاہم اس حوالے سے بزرگ افراد سے ملاقاتوں کے حوالے سے چند چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے اگر آپ صحت مند ہیں اور کوئی علامات نہیں، تو گھروالوں سے ملنے سے گریز کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر طبیعت ٹھیک نہیں، تو ان کے پاس جانے سے گریز کریں۔

ان حالات میں ٹیکنالوجی مددگار ثابت ہوسکتی ہے، دوست کو کال کریں، واٹس ایپ میسجز کریں (مگر جعلی یا غیرمصدقہ خبروں کو شیئر کرنے سے گریز کریں) اور اگر ان کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ویڈیو کال کی جاسکتی ہے۔

زیادہ لوگوں کے اجتماع اور کھانے سے بچیں، بلکہ دوست کے ساتھ اکیلے وقت گزارنے کو ترجیح دیں۔

سودا سلف لینے کے لیے کیا کریں؟

وزیراطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے لاک ڈائون کی افواہوں کی تردید کی ہے جو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کچھ حلقے لوگوں کو راشن جمع کرنے کا کہہ رہے ہیں جو کہ غیرضروری ہے۔

اس وضاحت کے باوجود لوگوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے، یعنی وہ اشیائے خورونوش کو جمع کررہے ہیں۔

اگر سودا سلف خریدنے جارہے ہیں، تو اس کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کریں:

کورونا وائرس کے حوالے سے دیگ سماجی میل جول کے اصولوں پر عمل کریں

بزرگ اور زیادہ خطرے کا سامنا کرنے والے افراد کو گھر پر ہی رہنے دیں

خریداری کے لیے جاتے ہوئے دیگر افراد کے بارے میں بھی سوچیں، تیار رہنا بہتر ہے مگر اشیا کا ذخیرہ مت کریں کیونکہ وہ دیگر کو درکار ہوسکتی ہیں

چھینکنے یا کھانسنے والے افراد سے کم از کم ایک میٹر دور رہنا نہ بھولیں، اگر آپ ان سب چیزوں کا خیال رکھ سکتے ہیں تو گھر سے کسی وقت بھی باہر جاسکتے ہیں چاہے راشن خریدنے، کھانا کھانے یا دفتر۔

جہاں تک کرنسی نوٹوں کو چھونے کی بات ہے تو دی گارڈین کا کہنا ہے کہ بینک آف انگلینڈ کے مطابق ان سے کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر عام اشیا کو چھونے کے مقابلے میں زیادہ نہیں۔

رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ نوٹوں سے وائرس کی منتقلی کی نیوز کی وضاحت غلط کی گئی ہے۔

بیشتر نوٹ اور سکے متعدد افراد کے زیراستعمال رہ چکے ہوتے ہیں، تو اگر آپ اس حوالے سے فکرمند ہوں تو جہاں تک ممکن ہو کانٹیکٹ لیس کارڈ سے ادائیگی کریں۔

ہمارا مشورہ ہے کہ راشن خریدتے ہوئے ان چیزوں کو ذہن میں رکھیں، دیگر افراد سے فاصلہ، اشیا کی ذخیرہ اندوزی سے گریز، دیگر افراد کی خریداری کا خیال، خصوصاً ایسے افراد جن کو ضروری اشیا درکار ہوسکتی ہیں، جبکہ ہاتھوں کو دھونے اور اچھی صفائی کی مشق۔

کیا میں نماز پڑھنے جاسکتا ہوں؟

پاکستان علما کونسل کے جاری کردہ فتویٰ میں لوگوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ فتوے میں مزید کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے دوران اردو خطبے سے اجتناب جبکہ عربی خطبے کو مختصر کیا جائے۔

نمازیوں کی قطاروں میں محفوظ فاصلے کا خیال رکھا جائے، چٹائیوں کی جگہ فرش پر نماز ادا کی جائے جس کی صفائی صابن اور پانی سے کی جانی چاہیے۔

فتوے میں کہا گیا کہ نماز کھلے مقام پر ادا کی جائے جبکہ بزرگ اور بیمار افراد کو گھر پر نماز پڑھنی چاہیے۔

اس سے قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نماز کے حوالے سے کہا تھا کہ شہریوں کو نماز جمعہ کے حوالے سے حکومتی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔

۔

تو جب نماز کے لیے مسجد جانے کا فیصلہ کریں تو حکومتی اور مذہبی علما کے مشوروں پر عمل کریں اور اپنی صحت کے ساتھ ساتھ ارگرد موجود افراد کی صحت کا بھی خیال رکھیں۔

کیا جم جاسکتے ہیں؟

ورزش صحت کے لیے ضروری ہے مگر موجودہ حالات میں عام جم میں جانے سے بچیں، کیونکہ وہاں ہر مشین اور آلات کو جراثیموں سے پاک کرنا ممکن نہیں۔

اگر ورزش چھوڑنا ہیں چاہتے تو اپنے گھر میں جگہ بنائیں اور یوٹیوب ورک آئوٹ ویڈیوز سے مدد لیں۔

صوبہ سندھ میں سوئمنگ پولز اور جم 3 ہفتوں کے لیے بند کردیئے گئے ہیں جبکہ پنجاب میں دفعہ 144 کا نفاذ ہوچکا ہے۔

چہل قدمی پر جاسکتے ہیں؟

نیویارک ٹائمز کی ایک رپوپرٹ کے مطابق ورزش کورونا وائرس کے اثرات سے لڑنے میں مفید ثابت ہوسکتی ہے، ایک مریض جو جم جانے کا عادی ہو وہ اس کی جگہ چہل قدمی کو دے سکتا ہے۔

آپ پارک میں چہل قدمی کے لیے جاسکتے ہیں اگر حکومت نے اسے بند نہ کردیا ہو، پرہجوم پارکس سے گریز کریں، جہاں مطلوبہ فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہ ہو، سینی ٹائزر کو ساتھ رکھیں اور گیٹ، بینچ یا کچھ بھی چھونے پر استعمال کریں۔

اگر گھر میں باغیچہ موجود ہے تو بہتر ہے کہ چہل قدمی کے لیے اسے ہی ترجیح دیں۔

کیا بیوٹی پارلر جاسکتے ہیں؟

اس کا ابھی کوئی واضح جواب تو موجود نہیں، مگر ایک ماہر کا کہنا ہے کہ یہ دیکھیں کیا گھر میں یہ کام ہوسکتا ہے؟ کیا اس سے بچا جاسکتا ہے؟ کیا جانا ضروری ہے؟

بال اسٹیٹ یونیورسٹی کے ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر جگدیش خوبچندانی کے مطابق سیلون اور دیگر سروسز فراہم کرنے والے ادارے وائرس کے نتیجے میں زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں کیونکہ وہاں لوگوں میں جسمانی قربت زیادہ ہوتی ہے۔

اسپا اور سیلونز کی جانب سے احتیاطی اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں، مگر ہم زور دیں گے کہ آپ احتیاط سے کام لیں اور اپنے خدشات کو ان جگہوں کو چلانے والوں تک پہنچائیں، اگر ان کا جواب مطمئن کردے تو پھر آپ سیلون میں جاسکتے ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والے رشتے دار یا دوست سے ملنا چاہیے؟

کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر میں سیاحت بہت بری طرح متاثر ہوئی ہے، مگر جب آپ کا کوئی رشتے دار یا دوست بیرون ملک سے واپس آئے اور آپ کا دل اس سے ملنے کو کرے تو پھر کیا کرنا چاہیے؟

اس حوالے سے واضح ہدایات موجود نہیں، اس کے لیے دیگر ممالک میں کیے جانے والے اقدامات کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔

متعدد ممالک بشمول کینیڈا، متحدہ عرب امارات اور قطر میں بیرون ملک سے آنے والے افراد کو گھر میں 2 ہفتے تک رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے، اس عرصے میں انکی صحت کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ سماجی فاصلے کی مشق کو اختیار کیا جاتا ہے۔

اس کا اطلاق پاکستان میں بھی کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگوں نے وطن واپسی پر ایسا کیا بھی ہے جن میں وکیل اور سماجی رہنما جبران ناصر بھی شامل ہیں، جو امریکا سے واپس آئے تھے۔

ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق حال ہی میں بیرون ملک سے واپس آنے والے افراد کو اپنی حالت کا خود جائزہ لینا چاہیے اور گھر میں قیام کرنا چاہے، اگر ان میں علامات نظر آئیں تو خود کو گھروالوں سے الگ یا آئسولیٹ کرلینا چاہیے۔ اگر صورتحال زیادہ خراب ہو تو انہیں فوری طور پر حکام کو رپورٹ کرنا چاہیے۔

ایسے حالات میں دوستوں اور رشتے داروں کو کہنا چاہیے کہ اب ملاقات 2 ہفتے بعد ہوگی۔

کیا ایک یا 2 ماہ بعد سفر کرسکتے ہیں؟

اس وقت سائنسدان یہ پیشگوئی نہیں کرسکتے کہ کورونا وائرس کا خاتمہ مکمل طور پر ہوجائے گا، مگر ہم غیرمعینہ مدت تک غیریقینی صورتحال میں زندگی نہیں گزار سکتے، تو آپ 2 یا 3 ماہ بعد کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں، مگر اس حوالے سے ردوبدل کے لیے ذہن کو تیار رکھیں۔

ان نکات کو ذہن میں رکھیں:

منزل کا تعین کرتے ہوئے احتیاط کریں، یعنی یہ جان لیں کہ وہ ملک یا شہر وائرس سے کس حد تک متاثر ہوا

آپ ٹکٹ اور ہوٹل بک کراسکتے ہیں مگر اس بات کو یقینی بنائیں کہ سفر کی منسوخی یا سفری پابندیوں پر مکمل ری فنڈ کی سہولت حاصل ہو

منتخب کیے گئے مقام کے حوالے سے سفری ایڈوائزری کو چیک کریں

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے منصوبے کو بدلنے کے لیے تیار رہیں کیونکہ اس کا انحصار عالمی صورتحال پر ہوگا

اس مضمون کو انگلش میں پڑھیں

عوام نے احتیاط نہ کی تو لاکھوں افراد لقمہ اجل بن سکتے ہیں، ایران کا انتباہ

کورونا وائرس سے تحفظ پر پھیلنے والے ابہام اور ان کی حقیقت

نوول کورونا وائرس کی تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ وضاحت سامنے آگئی